سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(583) رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا کیسا ہے؟

  • 24593
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 505

سوال

(583) رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے اور شرعی اصطلاح میں قیام کا اطلاق صرف قبل از رکوع حالت پر ہوتا ہے جس میں قرأت ہے۔ ورنہ لازم آئے گا، کہ ہر رکعت میں دو سجدوں کی طرح دو قیام ہیں، جب کہ کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں۔ ایک ر کعت میں تکرارِ قیام صرف صلوٰۃ کسوف میں معروف ہے۔ اس بناء پر بعد از رکوع کی حالت کو اعتدال یا رفع بعد الرکوع یا قومہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(حجۃ اﷲ البالغہ)

محدثین کرام کی عادت ہے، کہ پہلے قیام کو علی الاطلاق بیان کرتے ہیں اور دوسرے کو مقید، اور جہاں دونوں اکٹھے آئیں، پہلے کو لفظِ قیام سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے کو اعتدال یا رفع بعد الرکوع سے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ’’سنن نسائی‘‘ کی روایت میں

’ اِذَا کَانَ قَائِمًا ، یا ’کُلَّمَا قَامَ قَبَضَ بِیَمِینِهٖ عَلٰی شِمَالِهٖ ‘"سنن النسائی،وَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ فِی الصَّلَاةِ،رقم:۸۸۷"کا تعلق پہلے قیام سے مخصوص ہے۔ لفظ’ اِذَا ، رکوع سے پہلے حالت کے ساتھ مختص ہے۔ عام نہیں۔ بعض حالات میں ’’اذا‘‘ کے عدم ِ عموم کی بے شمار امثلہ موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا رب العزت نے:﴿اِذَا تُتلٰی عَلَیهِم اٰیٰتُ الرَّحمٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا﴾ (مریم:۵۸)﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ عَلَیهِمُ القُراٰنُ لَا یَسجُدُونَ﴾(الانشقاق:۳۱) پھر رکوع کے بعد ہاتھ چھورنے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ انسان کی طبعی حالت یہی ہے۔ البتہ باندھنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، جو یہاں موجود نہیں۔ اس بناء پر اہل علم نے کہا ہے ،کہ وضو کے بعد شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

جس طرح کہ بسرہ رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے اور طلق بن علی رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے، کہ وضو نہیں ٹوٹتا۔ طلق کی حدیث چونکہ اصل کے مطابق ہے ۔اس لیے اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور بسرہ کی حدیث ’ناقل عن الاصل‘ ہے۔ لہٰذا راجح بات یہی ہے، کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے اور براء کی حدیث میں ہے۔

نبی کا رکوع وسجود میں اور سجدوں کے درمیان، اور رکوع کے بعد وقفہ قریباً برابر ہوتا۔ سوائے قیام اور تشہد کے کہ وہ لمبے ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیام کا اطلاق صرف رکوع سے پہلی حالت پر ہے۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے بارے میں علامہ البانی فرماتے ہیں:’’ مجھے اس میں کوئی شک نہیں، کہ اس قیام میں ہاتھ باندھنا بدعت اور گمراہی ہے۔ کیونکہ ’صفۃ الصلوٰۃ‘ کی اتنی ساری احادیث میں سے کسی میںوارد نہیں۔ اگر اس کا کوئی اصل موجود ہوتا، تو منقول ہوتا چاہے۔ ایک طریق سے کیوں نہ ہو ۔ اس کی تائید اس بات سے ہوئی ہے، کہ سلف صالحین میں سے کسی نے یہ فعل نہیں کیا اور جہاں تک مجھے علم ہے، ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس مسئلہ کو چھیڑا تک نہیں۔‘‘ صفۃ الصلوٰۃ،ص:۱۱۵

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:515

محدث فتویٰ

تبصرے