سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(571) نمازِ باجماعت میں ملنے کا طریقہ

  • 24581
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 718

سوال

(571) نمازِ باجماعت میں ملنے کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ ۳،جلد:۴۷۔۲۰ جنوری/۱۹۹۵ء ،۱۸شعبان کے ص:۹، پر حافظ ثناء اﷲ صاحب مدنی کا ایک سوال کا جو اب چھپا ہے، جو راقم کو ذرا کھٹکتا ہے۔ اگر راقم کی رائے درست نہ ہو تو تصحیح فرما دینا۔ اگر مفتی صاحب کی رائے درست ہو تو بذریعہ ’’الاعتصام‘‘ تائید فرما دینا، تاکہ راقم اپنے موقف پر نظر ثانی کر سکے۔سوال درج ذیل ہے۔

امام جب رکوع و سجدہ میں ہو تو جو شخص نماز میں آکر ملے وہ تکبیر کہہ کر سینہ پر دونوں ہاتھ باندھ کر پھر تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ رکوع یا سجدہ میں ملے یا کوئی اور صورت ہے۔ سوال ختم ہوا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں مأموم ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پوری کرکے امام کے ساتھ مل جائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

حضرت حافظ ثناء اﷲ صاحب کا جواب حدیث تَحرِیمُهَا ، التَّکبِیرُ، وَ تَحلِیلُهَا، التَّسلِیم"سنن أبی داؤد،بَابُ الْإِمَامِ یُحْدِثُ بَعْدَ مَا یَرْفَعُ رَأْسَہُ مِنْ آخِرِ الرَّکْعَۃِ،رقم:۶۱۸"اور روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما  ’رَأَیتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ اِفتَتَحَ التَّکبِیر فِی الصَّلٰوةِ  ، فَرَفَعَ یَدَیهِ حِینَ یُکَبِّرُ‘صحیح البخاری،بَابٌ: إِلَی أَیْنَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ؟،رقم:۷۳۸"  کے پیش نظر نمازی پہلے مکمل طور پر نماز کی کیفیت کو اختیار کرے۔ پھر جس حالت میں امام کو پائے اسے اختیار کرے۔ جواب ختم ہوا۔

حضرت حافظ صاحب نے یہ واضح نہیں فرمایا: کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر امام کے ساتھ ملنا ہے یا کہ صرف ’’اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر ۔ حضرت کے یہ الفاظ کہ ’’نمازی پہلے مکمل طور پر نماز کی کیفیت کو اختیار کرے۔ …الخ‘‘ بتا رہے ہیں، کہ ہاتھ وغیرہ سینے پر باندھ کر، پھر امام والی حالت میں داخل ہونا ہے، جب کہ راقم کا خیال ہے، کہ مقتدی پہلے ’’اَللّٰہُ اَکبَرُ‘‘ کہے اور رفع یدین کرے۔ جیسا کہ حضرت حافظ صاحب نے تحریر فرمایا ہے: اور ہاتھ وغیرہ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیدھا جس حال میں امام ہے، اسی حالت میں شامل ہو جائے۔ اگر ہاتھ باندھ کر شامل ہو، تو پھر مندرجہ ذیل حدیث سے مطابقت نہیں رہتی۔ حضرت علی اور معاذ رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے، رسولِ کریمﷺ نے فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی نماز کو آئے تو… ’فَلیَصنَع، کَمَا یَصنَعُ الاِمَامُ‘"ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ باب ما علی المأموم،فصل:۲( سنن الترمذی،بَابُ مَا ذُکِرَ فِی الرَّجُلِ یُدْرِکُ الإِمَامَ وَہُوَ سَاجِدٌ کَیْفَ یَصْنَعُ،رقم:۵۹۱ )  اسے وہ کرنا چاہیے، جو کہ امام کرتا ہے۔

تنبیہ:اس کی سند میں اگرچہ ضعف ہے۔ مگر علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ  نے اس کو شواہد کی بناء پر قابلِ قبول قرار دیا ہے۔ مرعاۃ المفاتیح:۱۲۸/۳

اور علامہ مرحوم اس کی تشریح میں رقمطراز ہیں:

’ أَی لِیُکَبِّرَ تَکبَیرَةَ الاِحرَامِ، وَ یُوَافِقَ الاِمَامَ فِیمَا هُوَ مِنَ القِیَامِ ، أَوِ الرَّکُوعِ، أَو غَیرِ ذٰلِكَ ، وَ لَا یُخَالِفُهُ بِأَدَاءِ مَا سَبَقَ مِنَ الصَّلٰوةِ ‘

یعنی تکبیرِ تحریمہ کہے اور قیام ، رکوع، سجود وغیرہ میں (مقتدی) امام کی موافقت کرے۔سابقہ نماز کی ادائیگی کرکے امام کی مخالفت نہ کرے۔

نوٹ: قیام میں آکر ملنے والے مقتدی کو ہاتھ باندھنے ہی ہیں۔ کیونکہ امام بھی اس حالت میں ہے مگر بعد ازاں مقتدی پابند نہیں۔ ’’اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر ’’رفع الیدین‘‘ کرے اور امام کی حرکات و سکنات میں شریک ہو جائے۔ھذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب۔ (الاعتصام: ۲۹ستمبر ۱۹۹۵ئ)

مزید وضاحت(از شیخ الحدیث حافظ ثناء اﷲ مدنی)

ہاں اصل یہی ہے، کہ مسبوق تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ مل جائے اور جہاں تک سینے پر ہاتھ رکھنے کا تعلق ہے ، سو یہ ایک ذیلی حالت ہے۔ اس سے مقصود صرف نماز میں داخل ہونے کی عمومی حیثیت کا اظہار ہے اور حدیث ’فَلیَصنَعُ کَمَا یَصنَعُ الاِمَامُ ‘(سنن الترمذی،بَابُ مَا ذُکِرَ فِی الرَّجُلِ یُدْرِکُ الإِمَامَ وَہُوَ سَاجِدٌ کَیْفَ یَصْنَعُ،رقم:۵۹۱)  اگرچہ ضعیف ہے، لیکن محدثین نے شواہد کی بناء پر اس کو قابلِ اعتبار سمجھا ہے ۔یہ اس بات پر محمول ہے، کہ بعد میں آنے والا امام کو جونسی حالتِ قیام، قعود، رکوع سجود میں سے پائے، ساتھ شامل ہوجائے۔ امام کے قیام کی طرف لوٹنے کا انتظار نہ کرے اور اگر کوئی شخص حدیث ہذا کے عموم کی بناء پر بغیر ’ وَضعُ الأَیدِی ‘  صرف تکبیر پر اکتفاء کرے۔ یہ بھی درست ہے۔ مجھے اپنی رائے پر اصرار نہیں۔

فتویٰ ہذا ’’مرعاۃ ‘‘اور ’’سبل السّلام‘‘ وغیرہ کی طرف مراجعت کے بعد ہی تحریر کیا گیا تھا۔ بہرصورت میرے خیال میں مسئلہ ہذا میں وُسعت کا پہلو موجود ہے۔ (واﷲ أعلم بحقیقۃ الحال)

حوالہ کی نشاندہی:

مشارٌالیہ روایت امام بیہقی کی کتاب ’’شعب الایمان‘‘ میں ہے۔ ملاحظہ ہو! (۴۲۵/۳) الرابع والعشرین من شعب الایمان و ھو باب فی الاعتکاف‘‘ عنون کے تحت یہ حدیث بیان ہوئی ہے۔

لیکن سخت ضعیف ہے۔ بذاتِ خود مصنف نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

’ وَ إِسنَادُهٗ ضَعِیفٌ، وَ مَا قَبلَه(فِیهِ) ضُعفٌ۔ (واﷲ أعلم) ‘

اور رقم الحدیث (۳۹۶۷) کے تحت فرماتے ہیں:درست بات یہ ہے ،کہ علی بن حسین سے راوی محمد بن سلیم کے بجائے محمد بن زاذان ہے۔

’ وَهُوَ مَترُوكٌ ۔ قَالَ البُخَارِیّ: لَا یُکتَبُ حَدِیثُهُ۔ ‘

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  تقریب التہذیب میں رقمطراز ہیں:

’ مُحَمَّدُ بنُ زَاذَانَ المَدَنِی مَترُوكٌ، مِنَ الخَامِسَةِ /ت ق۔‘

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:500

محدث فتویٰ

تبصرے