سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(559) کیا رفع الیدین آپ ﷺ کی مستقل سنت ہے؟

  • 24569
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1228

سوال

(559) کیا رفع الیدین آپ ﷺ کی مستقل سنت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم جناب شیخ الحدیث صاحب! عرض ہے کہ ہماری جماعت (اہل حدیث) کے نمازیوں کی تعداد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ ہمارے گائوں میں تقریباً اڑھائی سو گھر آباد ہیں۔ جن میں سے صرف پندرہ بیس گھر اہلِ حدیث جماعت کے ہیں، اور اُن میں سے صرف چند ایک نماز پڑھنے آتے ہیں اور بریلوی اور دیو بندیوں کی اکثریت ہے اور بریلوی حضرات آئے دن کوئی نیا مسئلہ چھیڑ دیتے ہیں جس سے فضا مکدر ہوتی ہے اور طرح طرح کے سوال کرتے ہیں جس سے سخت ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ بعض سوالوں کے جواب ہم اُسی وقت دے دیتے ہیں مگر کچھ سوالوں کے جواب تحقیق اور مطالعہ سے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ چند سوالوں کے جواب مع حدیث حوالہ صفحہ نمبر ضرور دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور لمبی صحت والی عمر عطا فرمائے، آمین۔

ایک مولوی صاحب نے کہا ہے کہ اگر تم یہ ثابت کردو کہ رفع الیدین پاک پیغمبر ﷺ نے ساری عمر یعنی وفات تک کیے رکھا ہے تو میں تمہیں دس ہزار روپے انعام دوں گا۔ میں نے کہا ہے کہ مجھے انعام کا لالچ مت دو۔ رہی حدیث کی بات تو وہ میں تمہیں ضرور تلاش کرکے بتائوں گا اور اُس نے کہا ہے کہ اگر کوئی مل جائے کہ رفع الیدین آپ ﷺ کی مستقل سنت ہے تو میں ضرور کیا کروں گا۔

آپ سے گزارش ہے کہ حدیث کے حوالہ سے مع صفحہ نمبر ضرور آگاہ کریں تاکہ کوئی آدمی شاید راہ ہدایت پر آجائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عَنِ ابنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُمَا اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ کَانَ اِذَا افتَتَحَ الصَّلٰوةَ رَفَعَ یَدَیهِ،  وَاِذَا رَکَعَ، وَاِذَا رَفَعَ رَأسَهٗ مِن رُکُوعِ ، وَکَانَ لَا یَفعَلَ ذٰلِكَ فِی السُّجُودِ فَمَا زَالَت تِلكَ صَلٰوتُهٗ حَتّٰی لَقِیَ اللّٰهَ تَعَالٰی ‘ تلخیص الحبیر، بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ،رقم:۳۲۸

’’حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے، اور جب اٹھاتے سر اپنا رکوع سے اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے ملتے دم تک آپ کی نماز اسی طرح رہی (یعنی وفات تک حضور ﷺ رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے رہے۔)‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے وفات تک ساری نمازوں میں رفع یدین کی ہے۔ ہمارے شیخ محدث گوندلوی  رحمہ الله  رقم طراز ہیں:

’’اور بعض حنفیہ کا حدیث ابن عمر  رضی اللہ عنہ  بزیادت بیہقی ’فما زالت تلك صلوته حتی لقی اللّٰه‘(السنن الکبرٰی للبیہقی ،بَابُ التَّکْبِیرِ لِلرُّکُوعِ وَغَیْرِہِ،رقم:۲۴۹۲) کو موضوع کہنا اس بناء پر کہ اس میں ایک راوی عصمہ بن محمد ہے۔ اُس کو یحییٰ بن قطان نے کذاب اور دوسرا راوی عبدالرحمن بن قریش ہے۔ اُس کو ذہبی نے ’’میزان‘‘ میں ’’وضَّاع‘‘ کہا ہے۔ سو اوّلاً تو اس کا جواب یہ ہے کہ عصمہ بن محمد دو شخص ہیں: ایک عصمہ بن محمد بن ہشام بن عروہ ہے۔ وہ متروک الحدیث ہے۔ اس کو یحییٰ نے ’’کذاب‘‘ کہا ہے اور ابوحاتم نے ’’لیس بالقوی‘‘ اور دوسرا عصمہ بن محمد بن فضالۃ بن عبید الانصاری ہے۔ اس کو کسی نے ’’کذاب‘‘ وغیرہ نہیں کہا اور یہی عصمہ بن محمد انصاری راوی زیادتی ’’فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللہ‘‘ الحدیث رواہ البیہقی کے ہیں۔

مولوی شوق نیموی حنفی نے اپنی بے علمی سے بوجہِ تعصب مذہبی عصمہ بن محمد انصاری کو مجروح قرار دے کر روایت کو ضعیف وموضوع کہہ دیا ہے۔ ورنہ عصمہ بن محمد انصاری پر کسی نے جرح، جو قادح ہو نقل نہیں کی۔ اس لیے حفاظِ حدیث مثل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، وحافظ زیلعی رحمہ اللہ  وغیرہ نے اس روایت کو معرضِ استدلال میں ذکر کرتے ہوئے کوئی جرح نہیں کی اور محدثین کا ایک روایت کو نقل کرکے استدلال کرنا، اور اس پر جرح نہ کرنا، اس کے صحت کی دلیل ہے۔ جیسا کہ کہا مولانا محمود الحسن الدیوبندی الحنفی استاذ الاحناف الموجودین کتب معتبرہ میں مصرح موجود ہے، کہ نقل روایت کے بعد سکوت کرنا، یعنی روایت پر کسی قسم کا طعن وجرح نہ کرنا، اس امر کی دلیل ہے، کہ ناقل کے نزدیک وہ روایت مقبول ہے۔ ورنہ ساکت متصمہ بہ تقصیر ہوگا جو اکابر کی نسبت خیالِ باطل ہے۔ (دیکھو رسالہ احسن القری، ص:۱۳)

دیکھئے اب ہمارے مولوی اشفاق الرحمن صاحب حدیث مذکور کی صحت تسلیم کرتے ہیں یا مولانا محمود الحسن کی تکذیب کرتے ہیں۔

ثانیاً: روایت ’فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللّٰہ‘ کی مؤیدات، وہ روائتیں بھی ہوسکتی ہیں، جن میں لفظ ’اذا کان یفعل‘  وغیرہ آیا ہے۔ جو جرح عبدالرحمن بن قریش پر کی گئی ہے۔ وہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ سلیمانی نے متہم بالوضع کہا ہے، کما فی ’’المیزان‘‘ پس درحقیقت وہ وَضَّاع نہیں ہے۔ صرف اس پر اِتِّہام ہے۔ اس لیے امام خطیب بغدادی نے ان کی توصیف کی ہے۔ ’ما لفظہ لا یسمع عنہ الاخیر‘(لسان المیزان) اور حافظ ذہبی نے حکم وضع کا نہیں لگایا، یہ آپ کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ حافظ صاحب ’’میزان‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اتہمہ السلیمانی بوضع الحدیث۔‘‘

یعنی یہ ان پر اتہام ہے درحقیقت کوئی جرح نہیں۔ آپ نے اپنی خوش فہمی سے حافظ ذہبی پر اس کو وضاع کہنے کا الزام لگایا۔

ولنعم ما قیل: وَ کَم مِن عَائِبٍ قَولًا صَحِیحًا… وَ آفتُه مِنَ الفَهمِ السَّقِیمِ

کیونکہ یہ روایت بطریقِ محدثین ضعیف وموضوع ہوتی، تو بڑے بڑے حفاظ اس روایت کو ذکر کرکے سکوت نہ کرتے۔ جب کہ وہ ادنی ادنی ضعف کو ذکر کرکے روایت کو مجروح قرار دیتے ہیں اور مولانا عبدالرحمن صاحب نے جو ’’ابکار المنن‘‘ میں سکوت کیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہی معلوم ہوتی ہے۔ کہ مولانا موصوف نے اس قول کو لغو اور قابلِ جواب نہیں سمجھا۔ یا مولانا نے اس پر مفصل لکھنے کا ارادہ کیا ہو۔ اس وجہ سے اس جگہ مسامحت سے کام لیا۔ ورنہ قول نیموی کا محض بے علمی اور ناواقفی پر مبنی ہے۔ التحقیق الراسخ، ص:۵۵،۵۶

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:486

محدث فتویٰ

تبصرے