سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(557) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی اسنادی حیثیت

  • 24567
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3280

سوال

(557) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی اسنادی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کے مصنف نے ’’باب صِفَتہِ الصَّلٰوۃِ‘‘ میں حضرت علقمہ سے انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ حضورﷺ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ اس پر امام ابودائود نے عدمِ صحت کا حکم لگایا ہے۔ برائے مہربانی وضاحت فرما دیجئے کہ یہ صحیح کیوں نہیں ؟ اور یہ کہ رفع یدین سنت ہے یا نماز کا رکن یا شرط؟اور اس کے بارے میں کیا کسی امام کا قول بھی ملتا ہے کہ رفع یدین کرنا یا نہ کرنا دونوں طرح صحیح ہے۔ کیا رفع یدین نہ کرنے سے نماز میں کمی آ جاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کی عدمِ صحت کی مختلف وجوہ ہیں۔ ناقدینِ ائمہ حفاظ نے اس کو ضعیف قرار دیا۔ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن کلیب راوی پرہے، جو اس میں منفرد ہے۔ علی بن مدینی فرماتے ہیں: کہ اس کے منفرد ہونے کی صورت میں کوئی روایت قابلِ حجت نہیں ہوتی۔ اگر اس کی سند صحیح تسلیم کر لی جائے تو پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ ابن مسعود تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفع یدین بھول گئے جس طرح کہ بہت سارے امور اور بھی بھول گئے تھے۔ مثلاً وہ رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے کی بجائے، تطبیق (آپس میں ملاکر گھٹنوں کے اندر رکھنے) کے قائل تھے۔ جب کہ دیگر سب صحابہ]  ان کے مخالف تھے۔ انہوں نے رفع الیدین کی نفی کی ہے۔ جب کہ اثبات نفی پر مقدم ہے۔

احادیثِ رفع الیدین ابن مسعود کی حدیث پر مقدم ہیں۔ کیونکہ یہ بہت سارے صحابہ رضی اللہ عنہم  سے منقول ہیں، یہاں تک کہ علامہ سیوطیؒ نے کہاہے کہ احادیثِ رفع یدین نبی ﷺسے متواتر ہیں۔ احتمال ہے کہ آغاز ِ نماز میں رفع یدین کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ہو۔ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایة (۱؍۲۰۷) میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص (ص ۸۳) میں ابن ابی حاتم کی ’’علل‘‘ ( ص :۹۶) سے نقل کیا ہے کہ :

 ’’آپﷺ نے شروع کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔‘‘

یہ سفیان ثوری کا وہم ہے۔ امام بخاری نے وہم کی دلیل یہ بیان فرمائی ہے، کہ عاصم بن کلیب سے عبداللہ بن ادریس بھی روایت کرتے ہیں اور امام احمد بن حنبل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں، کہ ابن ادریس کی کتاب میں نے خود دیکھی ہے۔ اس میں یہ لفظ موجود نہیں، سفیان کی یہ روایت زبانی ہے اور مسلَّمہ اصول ہے کہ کتاب کو حفظ پر ترجیح ہے۔ پھر امام صاحب ’’جزء رفع الیدین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ

’ هٰذَا هُوَ المَحفُوظُ عِندَ اَهلِ النَّظرِ مِن حَدِیثِ ابنِ مَسعُودٍ۔‘

 حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: کہ میں رفع الیدین کرنے والوں کو نہ کرنے والوں سے اچھا سمجھتا ہوں۔ کیونکہ رفع الیدین کرنے کی حدیثیں بہت زیادہ اور بہت صحیح ہیں۔( حجۃ اللہ البالغہ: ۲؍۴۳۴)  امام محمد بن یحی ذہلی کا قول ہے: کہ رفع الیدین نہ کرنے والے شخص کی نماز ناقص ہوگی۔( صحیح ابن خزیمہ ،ج:۱،ص:۵۸۹،۲۹۸)  لہٰذا رفع یدین کا اہتمام لازماً ہونا چاہیے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:484

محدث فتویٰ

تبصرے