سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(556) ترکِ رفع یدین پر اہلِ مدینہ کا مؤقف

  • 24566
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-02
  • مشاہدات : 879

سوال

(556) ترکِ رفع یدین پر اہلِ مدینہ کا مؤقف

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ترکِ رفع یدین پر اہلِ مدینہ کا اجماع ہے:

’ قَالَ ابنُ القَیِّمِ مِن اُصُولِ مَالِكٍ: اِتِّبَاعُ عَمَلِ اَهلِ المَدِینَةِ، وَ اِن خَالَفَ الحَدِیثُ المَالِکِیَّةَ قَالُوا :رَفعُ الیَدَینِ حَذوَالمَنکَبَینِ عِندَ تَکبِیرَةِ الاِحرَامِ مَندُوبٌ۔ وَ فِیمَا عَدَا ذَالِكَ مَکرُوهٌ ‘کتاب الفقه علی المذاهب الاربعة:۲۰۵/۱


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاحب کتاب ’’الفقہ علی المذاہب الاربعتہ‘‘ کا ترکِ رفع یدین پر اہلِ مدینہ کا اجماع نقل کرنا غفلت کی دلیل ہے، جب کہ واقعات اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں۔ نیز امام مالک کی طرف منسوب اصول بھی محل نظر ہے۔ کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ  سے منقول ہے، کہ ہر ایک کی بات کو قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ سوائے صاحب قبر یعنی نبیﷺ کے۔ اس سے معلوم ہوا، کہ امام مالک کے نزدیک اصل سندِ حدیث ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ ’جُزءُ رَفعِ الیَدَینِ‘ میں فرماتے ہیں:

’ وَلَم  یَثبُت عِندَ اَهلِ النَّظرِ عَمَّن اَدرَکنَا مِنَ الحِجَازِ وَ اَهلِ العِرَاقِ۔‘

’’حجاز اور عراق کے جن اہل نقد والتحقیق اور علمائے نظر کا ہمیں علم ہے ان سے ترکِ رفع الیدین ثابت نہیں۔‘‘

نیز تکبیرۃ الاحرام کے علاوہ مالکیہ کی طرف کراہتِ رفع کی نسبت کرنا بھی غیر درست ہے ۔کیونکہ حافظ ابن عبد البر نے کہا ہے: کہ مالک  رحمہ اللہ  سے رکوع کو جاتے اور اٹھتے ترکِ رفع صرف ابن القاسم نے ذکر کیا ہے جب کہ ہمارے نزدیک حجت وہ حدیث ہے، جو ابن عمر سے مروی ہے، جسے ابن وہب وغیرہ نے مالک رحمہ اللہ  سے بیان کیا ہے اور ترمذی نے مالک رحمہ اللہ وغیرہ سے صرف یہی مذہب نقل کیا ہے۔ خطابی نے نقل کیا، اور اس کی پیروی میں قرطبی نے’المفھم‘ میں کہا: کہ مالک رحمہ اللہ  کے دو قولوں سے آخری اور صحیح ترین قول یہی(رفع یدین والا) ہے۔ حافظ عراقی نے ’’ طرح التثریب‘‘ میں کہا، اس قول کی حکایت مالک رحمہ اللہ  سے ابو مصعب، اشہب ، الولید بن مسلم اور سعید بن ابی مریم نے کی ہے اورترمذی نے بھی مالک سے اس بات کو جزم سے نقل کیا ہے۔ مسئلہ ہذا کی مکمل تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!مرعاۃ المفاتیح (۵۲۹/۱۔۵۴۹)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:483

محدث فتویٰ

تبصرے