سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(544) کیا رسولِ کریمﷺ نے رفع یدین کرنا چھوڑ دیا تھا؟

  • 24554
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 638

سوال

(544) کیا رسولِ کریمﷺ نے رفع یدین کرنا چھوڑ دیا تھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رسولِ کریمﷺ نے رفع یدین کرنا چھوڑدیا تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے علم میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں یہ ہو کہ رسول اﷲﷺ نے رکوع کے وقت رفع یدین کو ترک کردیا ہو۔ جب کہ اثبات کی بہت ساری روایات موجود ہیں۔ قریباً حدیث کی جملہ کتب میں مل سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  جو آپﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں مسلمان ہوئے تھے، ان سے بھی مشکوٰۃ میں بحوالہ مسلم مروی ہے:’’باب صفۃ الصلوۃ‘‘  حتی کہ عصام بن یوسف بلخی، فقیہ، حنفی بھی رکوع کو جاتے اور اس سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے۔(الفوائد ،ص:۱۱۶) پھر اسی کے مطابق وہ فتویٰ دیا کرتے تھے۔ (البحر الرائق:۲۹۳/۶) ،رسم المفتی :۲۸/۱)  اور امام الہند شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ  نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’حجة اللّٰہ البالغة‘‘ میں لکھا ہے:

’ وَالَّذِی یَرفَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّن لَا یَرفَعُ۔ فَإِنَّ أَحَادِیثَ الرَّفعِ أَکثَرُ ، وَ أَثبَتُ ۔‘

یعنی جو لوگ رکوع کو جاتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کرتے ہیں۔ وہ نہ کرنے والوں سے مجھے زیادہ پیارے ہیں۔ کیونکہ رفع الیدین کی حدیثیں تعداد میں زیادہ ہیں اور ثبوت میں بھی زیادہ پختہ ہیں۔

مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی مرحوم بھی اسی بات کے قائل تھے، کہ رفع یدین عمر بھر میں کبھی کرلینا چاہیے اور مفتی کفایت اﷲ حنفی فرماتے ہیں: کہ آمین بالجہر، اور رفع یدین کرنے والوں کو بنظرِ حقارت دیکھنا درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے صحابہ و تابعین اور ائمۂ مجتہدین ان کو سنت سمجھتے ہیں۔ قاضی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی ’’مالا بد منہ‘‘ میں رفع یدین کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ اکثر فقہاء و محدثین اثبات آں مے کنند‘‘ (بحوالہ فتاویٰ ثنائی (۵۹۷/۱۔۵۹۸) اور امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اپنی ’’سنن‘‘ میںفرمایا ہے: ’’اکثر صحابہ، تابعین اور محدثین کا اسی پر عمل ہے۔‘‘

ان نصوص اور تصریحات سے معلوم ہوا کہ رفع یدین منسوخ نہیں۔ محققین حنفیہ بھی اسی بات کے قائل ہیں اور جہاں تک نماز کے آغاز میں رفعِ یدین کا تعلق ہے، سبھی اہلِ علم متفقہ طور پر اس کے قائل ہیں۔ کسی کا اختلاف نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:476

محدث فتویٰ

تبصرے