سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(535) تین چار ماہ میں جہری نمازوں میں قرآنِ مجید ختم کرنا

  • 24545
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 901

سوال

(535) تین چار ماہ میں جہری نمازوں میں قرآنِ مجید ختم کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض جہری نمازوں میں تراویح کے انداز میں مسلسل قرآنِ مجید پڑھنے یعنی تقریباً ۳،۴ ماہ میں قرآنِ مجید کی تلاوت کا مکمل کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ایک مفکر اسلام کا کہنا ہے کہ یہ فرائض نماز کے لیے مکروہ ہے۔ کیا ایک روز پہلے یہ بتا دینا کہ کل نماز میں رکوع نمبر، سورۂ نمبر، اور آیت نمبر تلاوت کی جائے گی نامناسب ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ جو نمازی عربی سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے وہ گھر سے پڑھ کر آئیں؟ براہِ مہربانی مستند حوالوں سے روشنی ڈالیں، دل کا اطمینان درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تین چار ماہ میں جہری نمازوں میں قرآنِ مجید ختم کرنا کراہت سے بہرحال خالی نہیں۔ کمزور وناتواں اور حاجت مندوں کی رعایت کے پیشِ نظر نبی کریم ﷺ نے معاذ  رضی اللہ عنہ  کو عشاء کی نماز میں لمبی قرأت کرنے سے صرف روکا ہی نہیں بلکہ فتنے باز قرار دیا۔ پھر قدرے چھوٹی سورتوں کی تلقین فرمائی۔ بعض دیگر روایات سے بھی اس امر کی راہنمائی ملتی ہے۔ (بلوغ المرام باب صلاۃ الجماعۃ والامامۃ) صحیح البخاری،بَابُ إِذَا طَوَّلَ الإِمَامُ، وَکَانَ لِلرَّجُلِ حَاجَۃٌ، فَخَرَجَ فَصَلَّی ،رقم:۷۰۱، صحیح مسلم، بَابُ الْقِرَاء َۃِ فِی الْعِشَائِ ، رقم:۴۶۵

تاہم باقی نمازوں کی نسبت فجر کی نماز میں لمبی قرأت کرنا مسنون ہے۔ نیز امام کا نمازیوں کو مقام قرأت سے آگاہ کرنا ضروری نہیں، اپنے شوق سے امام کے مقامِ قرأت سے آگاہ رہیں۔ تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں، کیونکہ یہ شے فرائضِ امامت میں شامل نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:468

محدث فتویٰ

تبصرے