سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(524) نمازِجمعہ میں نماز کی مسنون قراءت کی بجائے اس سورت کی آخری آیات تلاوت کرنا

  • 24534
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1510

سوال

(524) نمازِجمعہ میں نماز کی مسنون قراءت کی بجائے اس سورت کی آخری آیات تلاوت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ جمعرات کے دن عشاء کی نماز میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون ، جمعہ کو صبح کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر اور نماز جمعہ میں سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ قرأت مسنونہ قرار پائی۔ اہلحدیث حضرات بہت پابندی کے ساتھ ان نمازوں میں ’’قرأت مسنونہ‘‘ کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں مگر (کثیر منھم) ’’ان میں سے اکثر‘‘ ان سورتوں کو پورا پورا نہیں پڑھتے بلکہ آدھی آدھی یا آخری تین تین آیات ہی پر اکتفا کرکے سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ’’قرأت مسنونہ‘‘ سے نمازیں ادا کر لی ہیں اور یہی تاثر مقتدی حضرات کو دیا جاتا ہے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر پوری پوری سورتیں نہ پڑھی جائیں تو کیا تب بھی ’’ قرأت مسنونہ‘‘ ہی کہلائے گی یا بالفاظ دیگر کسی سنت ثابتہ میں( یعنی حضور اکرمﷺ کے کسی قول یا فعل میں) اگر کچھ کمی بیشی کر لی جائے تو کیا پھر بھی وہ سنتِ ثابتہ ہی کہلائے گی یا اس کا نام کچھ اور ہو گا۔ اگر اورہو گا تو کیا ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرأت مسنونہ کی تعمیل ا س صورت میں ہو گی جب مکمل سورتوں کی تلاوت کی جائے۔ بعض آیات پر اکتفاء کرنے سے سنت ادا نہیں ہو گی، کیونکہ علی الاطلاق اسم سورت کا اطلاق کُل پر ہے۔ بعض پر نہیں۔ مثلاً کہا جائے، کہ فلاں نے ’’سورہ فاتحہ‘‘ کی تلاوت کی۔ اس کا مفہوم واضح ہے کہ مکمل سورت کی تلاوت کی۔ پھر نماز میں ’’سورہ فاتحہ‘‘ کی مشروعیت کے قائلین سب اس بات پر متفق ہیں، کہ مکمل سورت کا پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ نام کا اطلاق کُل پر ہے۔ بعض پر نہیں۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  قرأت مسنونہ پر بحث کرتے ہوئے رقمطرازہیں:

’ وَ أَمَّا الجُمُعَةُ فَکَانَ یَقرَأُ فِیهَا بِسُورَةِ الجُمُعَةِ ، وَالمُنَافِقِینَ کَامِلَتَینِ، وَ سُورَةَ سَبِّح ، وَالغَاشِیَةَ۔ وَالاِقتِصَارُ عَلٰی قِرَائَةِ أَوَاخِرِ السُّورَتَینِ مِن﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِینَ …﴾ إِلٰی آخِرِهَا فَلَم یَفعَلهُ قَطُّ وَهُوَ مُخَالِفٌ لِهَدیِهِ الَّذِی کَانَ یُحَافِظُ عَلَیهِ وَ أَمَّا قِرَائَةُ فِی الأَعیَادِ،  فَتَارَةً کَانَ یَقرَأُ سُورَة (قَ) وَ (اقتَرَبَت) کَامِلَتَینِ، وَ تَارَةً سُورَة’’سَبِّح‘‘، وَالغَاشِیَةِ‘‘ ، وَهٰذَا هُوَ الهَدیُ الَّذِی استَمَرَّ أَن لَقِیَ اللّٰهَ عَزَّوجَلَّ،  لَم یَنسَخهُ شَیئٌ وَ لِهٰذَا أَخَذَ بِهٖ خُلَفَائُهُ الرَّاشِدُونَ مِن بَعدِهٖ‘ زاد المعاد،۵۳،۵۴/۱

حاصل اس کا یہ ہے کہ نبیﷺ نے جمعہ اور عیدین وغیرہ میں ساری زندگی مخصوص مکمل سورتوں کا اہتمام فرمایا۔ بعض آیات کو کافی نہیں سمجھا۔ بعد میں خلفاء راشدین نے بھی اسی طریقہ کار کو اپنایا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:462

محدث فتویٰ

تبصرے