السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محافل قراء ت میں قاری صاحبان تلاوت کرتے ہیں تو سامعین حضرات اونچی آواز سے اللہ اللہ کہہ کر قاری صاحب کو داد دیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے اس کی کیا حیثیت ہے اور کہاں تک گنجائش ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قاری کی تلاوت کے دوران اللہ، اللہ کہہ کرداد دینے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ عمل نص قرآنی
﴿وَإِذَا قُرِئَ القُراٰنُ فَاستَمِعُوا لَهُ وَاَنصِتُوا لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ﴾ (الاعراف:۲۰۴)
’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ کے خلاف ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو معانی و مفاہیم سے ناواقفی کی بنا پر الفاظِ قرآن سے دراصل لذت وسرور حاصل ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی لطف اندوزی محض قاری کی نغمہ سرائی پر موقوف ہے اوروہ اس کی حسین و جمیل آواز پرمرمٹنے والے ہیں۔ اگرچہ تحسین صوت بھی مطلوب امر ہے۔
لیکن امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘قرآنی حروف کو ان کی حدود سے متجاوز کرنا حرام ہے‘‘۔ پھر عامۃ الناس کی دلچسپی کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی سادہ آواز میں قرآن پڑھتا ہے تو سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ نفرت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ قرآن میں مؤمنوں کے اوصاف یوں بیان ہوئے ہیں: ﴿إِنَّمَا المُومِنونَ الَّذینَ إِذا ذُکِرَ اللَّهُ وَجِلَت قُلوبُهُمْ وَإِذا تُلِیَت عَلَیْهِمْ ء اٰیـٰتُهُ زادَتْهُم إیمـٰنًا﴾(الانفال:۲)
’’مومن تو وہ ہیں،جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتاہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰهِ ذٰلِكَ هُدَی اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ﴾ (الزمر:۲۳)
‘‘جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہوکر) اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کرے، اس کو کوئی ہدایت دینے والانہیں۔‘‘
پھر صحیح حدیث میں ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے نبی ﷺ کے سامنے قرآن کی تلاوت کی ۔
’فَالْتَفَتُّ إِلَیْهِ، فَإِذَا عَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ‘ (متفق علیه)" صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ المُقْرِئِ لِلْقَارِئِ حَسْبُكَ،رقم:۵۰۵۰"
’’ناگہانی میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قرآنی تاثیر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اثرات انسان کے دل و دماغ پر ظاہر ہوں نہ کہ اللہ اللہ، کمان کمان، یا استاذ ہیہ ہیہ کہہ کر خانہ پری کی جائے، اس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ السنن والمبتدعات:صفحہ ۲۱۹؍۲۲۰
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب