السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امام جماعت اس بات کا قائل ہے کہ ’’قرأت مسنونہ‘‘ تبھی قراء تِ مسنون کہلائے گی اگر وہ سورتیں جو حضورﷺ نے مختلف نمازوں میں پڑھی ہیں۔ پوری پوری پڑھی جائیں وگرنہ مسنون قراء ت نہیں ہوگی۔
امام جماعت بالالتزام وہی سورتیں نمازکی رکعتوں میں پڑھتا ہے جو حضورﷺ نے پڑھی ہیں مگر پوری سورتیں نہیں پڑھتا کبھی آدھی سورت کبھی آخری تین چار آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا جاتا ہے اور ایسا کبھی کبھار نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ یوں ہی ہوتا ہے کیا ایسا امام مندرجہ بالا حقیقت ِ احوال کے پس منظر میں ’’ مسخ ِ سنت‘‘ کے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا؟اگر ہوتا ہے تو کیوں اور نہیں ہوتا تو کیوں یعنی ہر دو صورت میں دلائل بھی درکار ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاریب قرأتِ مسنون تبھی بنے گی، جب آپﷺ کے طریقہ کے مطابق ہو گی۔ قرآن میں ہے: ﴿لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الاحزاب:۲۱) عام حالات میں ہر رکعت میں نبیﷺ پوری پوری سورتیں پڑھتے تھے۔ حدیث میں ہے ’لِکُلِّ رَکعَةٍ سُورَةٌ ‘"ابن نصر طحاوی بسند صحیح " یعنی ہر رکعت میں مکمل سورت پڑھو۔ لیکن یہ امر مندوب ہے ۔ واجب نہیں، کیونکہ بعض دفعہ نبیﷺ ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں جمع کر لیتے تھے، جس طرح کہ نظائر کو جمع کرنے کی آپﷺ کی عادتِ مبارک تھی۔ سورۃ ’’الرحمن‘‘ اور ’’النجم‘‘ کو ایک رکعت میں اور ’’اقتربت‘‘ اور ’’الحاقۃ‘‘ ایک میں… الخ اور بعض دفعہ صرف فاتحہ پر اکتفاء کی۔ مزید سورت کو نہیں ملایا۔ "مسند الحارث بن ابی اسامہ" اور ایک صحابی ﴿قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾ کو ہر رکعت میں پڑھ کر، اس کے ساتھ سورت ملاتا تھا۔ آپﷺ نے اسے بھی پسند فرمایا۔ صحیح البخاری، بَابُ الجَمْعِ بَیْنَ السُّورَتَیْنِ فِی الرَّکْعَۃِ،قبل رقم:۷۷۵،و رقم:۷۳۵۷
عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اُس نے نقل کی اپنے باپ سے، اُس نے نقل کی اپنے دادا سے کہا اُس نے نہیں مفصل سے کوئی سورت چھوٹی اور نہ بڑی، مگر کہ میں نے سنی رسول اﷲﷺ سے ، کہ امامت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ (رواہ مالک) اور سورت کا بعض حصہ پڑھنے کا بھی جواز ہے، جس طرح صحیح مسلم میں ہے۔ نبیﷺ نے صبح کی نماز میں ’’المومنون‘‘ شروع کی۔ جب آپﷺ موسیٰ اور ہارون یا عیسیٰ کے ذکر پر پہنچے، تو کھانسی نے آلیا، تو آپﷺ نے یہیں رکوع کردیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی پہلی رکعت میں ایک سو بیس آیات تلاوت کیں اور دوسری رکعت میں ’’مثانی‘‘ سورتوں سے ایک سورت پڑھی۔ صحیح بخاری بَابُ الجَمْعِ بَیْنَ السُّورَتَیْنِ فِی الرَّکْعَۃِ ،قبل رقم:۷۷۵
اور ’’دارقطنی‘‘ میں بسند قوی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد ہے۔ انھوں نے ’’سورہ فاتحہ‘‘ پڑھی اور ہر رکعت میں ’’سورہ بقرہ‘‘ کی ایک ایک آیت بھی پڑھی۔ اسی طرح ’’صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ نبیﷺ نے فجر کی دو رکعتوں میں ’’بقرہ‘‘ اور ’’آل عمران‘‘ سے دو آیتوں کی تلاوت کی﴿قُولُوا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ…﴾(البقرۃ:۱۳۶) اور ﴿قُل یٰٓاَهلُ الکِتَابِ تَعَالُوا…﴾(اٰل عمرٰن:۶۴) صحیح مسلم،باب فضل رکعتی الفجر، رقم:۷۲۷
اصل یہ ہے کہ جو شے نفلوں میںجائز ہے۔ وہ فرضوں میں بھی جائز ہے، جب تک کوئی تخصیص نہ ہو ۔ لہٰذا اس عموم سے فرضوں کے لیے بھی استدلال ہو سکتا ہے اور قتادہ نے کہا، جو ایک سورت دو رکعتوں میں پڑھے یا ایک سورت کو بار بار دو رکعتوں میں پڑھے، سب اﷲ کی کتاب ہے۔ یعنی پڑھنے کا جواز ہے۔ سورۃ ’’الزلزال‘‘ کو آپ نے دو رکعتوں میں پڑھا اور موجودہ مصحف کی ترتیب کے خلاف بھی پڑھا جائے، تو جائز ہے۔ احنف نے پہلی رکعت میں الکہف اور دوسری میں یوسف یا یونس پڑھی اور انھوں نے یہ بھی ذکر کیا، کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز انہی سورتوں کیساتھ (اسی انداز میں) پڑھائی تھی۔
اورابن مسعود نے ’’انفال‘‘ سے چالیس آیتوں کی تلاوت کی اور دوسری رکعت میںمفصل کی ایک سورت پڑھی۔ صحیح البخاری ترجمۃ الباب،بَابُ الجَمْعِ بَیْنَ السُّورَتَیْنِ فِی الرَّکْعَۃِ
ان دلائل سے معلوم ہوا، کہ افضل یہ ہے، کہ ہر رکعت میں پوری سورت پڑھی جائے اور بعض حصہ پڑھنے کا بھی جواز ہے۔قرآنی آیت ﴿فاَقرَؤُا مَا تَیَسَّرَ مِنَ القُراٰنِ﴾(المزمل:۲۰) کا عموم بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔
نیز مختلف اوقات میں جو متعین سورتوں کی آپﷺ نے تلاوت فرمائی ہے۔ مثلاً جمعہ کے روز فجر کی نماز میں (سورۃ السجدہ) اور (سورۃ الدھر) اور جمعہ و عیدین میں (سورۃ الاعلیٰ) اور (سورۃ الغاشیۃ) کی تلاوت آپﷺ فرماتے۔ یا عیدین میں (قٓ) اور (اقتربت الساعۃ) بھی پڑھتے ۔یہاں سنت تب ادا ہوگی، جب ان سورتوں کو مکمل پڑھا جائے، اور کچھ حصہ پڑھنے سے سابقہ دلائل کی بناء پر نماز تو ہو جائے گی۔لیکن ایسا امام قرأت مسنونہ کے اجر وثواب سے محروم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب