سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(508) اونچی ’’آمین‘‘ کہنے پر اعتراض

  • 24518
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 771

سوال

(508) اونچی ’’آمین‘‘ کہنے پر اعتراض

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں میاں والی شہر میں ایک حنفی عالم قاری محمد شعیب صاحب نے جمعہ پڑھایا ہے اور آمین بالجہر کا ردّ قرآن کی آیت﴿ ٰٓیاََیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾ (الحجرات:۲) سے کرتے ہوئے کہا کہ اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ آمین سے مسجد گونج گئی۔ پہلی بات یہ ہے مسجد نبوی کچی تھی وہ کس طرح گونجتی تھی؟ دوسرے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’نبی ﷺ سے اپنی آواز بلند نہ کرو ورنہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔‘‘ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی  علیہ السلام کے نافرمان تھے کہ ایسا کرتے تھے؟ آمین اگر کہیں بھی تو بس اتنی کہ ساتھ والا سن لے، آواز گونجنے والی روایات میں اہلِ حدیث جھوٹے ہیں۔

براہِ مہربانی مفصل مسئلہ بیان فرمایا جائے، اہلِ حدیث ساتھیوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ کیا کسی مفسر نے اس آیت سے آمین بالجہر کا رد کیا ہے؟ (بینوا توجروا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بالا آیت سے آمین بالجہر کے عدمِ جواز پر استدلال کرنا، پلندۂ جہالت ہے۔ بلکہ جملہ مفسرین اور سلف  رحمہم اللہ  کے فہم کے خلاف ’’تفسیر بالرائے‘‘ ہے جس کا انجام کار جہنم ہے۔

مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی تعلیق الممجد میں فرماتے ہیں:

’ وَالاِنصَافُ أَنَّ الجَهرَ قَوِیٌ مِن حَیثُ الدَّلِیل ‘ (۴۴۶/۱)

’’انصاف کی بات یہ ہے، کہ اونچی آواز سے (آمین )کہنے کا ثبوت بہت پختہ ہے۔‘‘

امام بخاری  رحمہ الله  نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں باقاعدہ امام اور مأموم کے لیے بآواز بلند (آمین) کہنے کے عناوین قائم کیے ہیں۔ اس ضمن میں نقل کیا ہے، کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہما  اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے۔ کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔‘‘ صحیح البخاری،بَابُ جَہْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِینِ،قبل رقم:۷۸۰" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نبی ﷺ کے نافرمان نہیں تھے۔ تاہم ان کا فہم، فہمِ نبوت کے تابع تھا۔ جب آپﷺ سے (آمین بالجہر) ثابت ہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  بھی اسی پر عامل رہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے، کہ پختہ مسجد میں آواز گونجتی ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں۔ کچی میں بھی گونج پیدا ہو سکتی ہے۔ بلکہ جہاں مجمع ہو، افراد کثیر تعداد میں ہوں، وہاں قدرتی طور پر گونج پیدا ہو جاتی ہے۔ جس طرح کہ آج کل خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے مناظر میں مشاہدہ ہے۔ تابعی عطاء بن رباح  رحمہ اللہ کا بیان ہے، کہ میں نے دو سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو پایا ۔مسجد حرام میں جب امام ﴿وَلَا الضَّآلِّینَ﴾ کہتا، تو وہ سب بلند آواز سے (آمین)کہتے۔

بیہقی، ابن حبان، یہ ’’أثر‘‘ صحیح ہے۔ حرمین کی نمازوں کی کیفیت آج بھی اس امر پر شاہد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’یہود (اونچی) آمین سے جس قدر چڑتے ہیں، اتنا کسی اور سے نہیں۔ پس تم بہت (آمین) کہا کرو۔‘‘ سنن ابن ماجہ،بَابُ الْجَہْرِ بِآمِینَ،رقم:۸۵۷

یہ حدیث ’’ابن ماجہ‘‘ میں ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔ نیز صرف ساتھ والے کے آمین سننے کا کوئی ثبوت نہیں، بلا دلیل بات ہے، اہلِ حدیث کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا، کَج رَوِی کا نتیجہ ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ رب العزت جملہ اہلِ اسلام میں صحیح فہم پیدا فرمائے۔ آمین !

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:428

محدث فتویٰ

تبصرے