سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(498) کیا آمین بالجہر کے عدم جواز پر استدلال صحیح ہے؟

  • 24508
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 906

سوال

(498) کیا آمین بالجہر کے عدم جواز پر استدلال صحیح ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میانوالی میں ایک حنفی عالم قاری محمد شعیب صاحب نے جمعہ پڑھایا اور قرآن کی آیت﴿ٰٓیاََیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾سے آمین بالجہر کا ردّ کرتے ہوئے کہا کہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ آمین سے مسجد گونج گئی۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسجد نبوی کچی مسجد تھی، وہ کس طرح گونجتی تھی؟ دوسرے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کہ نبیﷺ سے اپنی آواز بلند نہ کرو ، ورنہ تمہارے ایمان ضائع ہو جائیں گے۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نعوذ باللہ نبیﷺ کے نافرمان تھے جو ایسا کرتے تھے؟ حنفی کہتے ہیں کہ آمین اگر کہیں بھی تو بس اتنی کہ ساتھ والا سن لے۔ آواز گونجنے والی روایات میں اہل حدیث جھوٹے ہیں۔(شاہجہاں ملک)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت سے آمین بالجہر کے عدم جواز پر استدلال کرنا نری جہالت ہے، جملہ مفسرین اور سلف کے فہم کے خلاف تفسیر بالرائے ہے جو مذموم ہے۔

مولانا عبد الحئی حنفی التعلیق المجد میں فرماتے ہیں:

’ والاِنصاف أن الجھر قوی من حیث الدلیل‘

’’انصاف کی بات یہ ہے کہ اونچی آواز سے آمین کہنے کا ثبوت بہت پختہ ہے۔‘‘

 امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں باقاعدہ امام اور مقتدی کے لیے بآواز بلند آمین کہنے کے عنوانات قائم کیے ہیں اور اس ضمن میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہ کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔ سنن النسائی،بَابُ جَہْرُ الْإِمَامِ بِآمِینَ ، رقم:۹۲۷، سنن أبی داؤد،بَابُ التَّأْمِینِ وَرَاء َ الْإِمَامِ، رقم: ۹۳۶

 امام بخاری رحمہ اللہ  نے سے بصیغہ جزم ذکر کیا ہے جو اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نبیﷺ کے نافرمان نہ تھے، تاہم ان کا فہم، فہم نبوت کے تابع تھا۔ جب آپﷺ سے آمین باجہر ثابت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اس پر عامل رہے۔ مسجد میں گونج کے لیے باقاعدہ پختہ چھت ہونا ضروری نہیں، کچی مسجد میں بھی گونج پیدا ہو سکتی ہے۔ بلکہ جو مسجد پختہ نہ ہو البتہ مجمع ہو تو وہاں قدرتی طور پر گونج پیدا ہو جاتی ہے جس طرح کہ آج کل خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے مناظر میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  تابعی کا بیان ہے کہ میں نے دو سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو پایا کہ وہ مسجد حرام میں جب امام وَلَا الضَّالِّیْنَ کہتا تو سب بلند آواز سے آمین کہتے۔(بیہقی، ابن حبان، یہ اثر صحیح ہے) حرمین شریفین کی نمازوں کی کیفیت آج بھی اس امر پر شاہد ہے۔

رسول للہﷺ نے فرمایا کہ جس قدر یہود اونچی آمین سے چڑتے ہیں، اتنا کسی اور سے نہیں، پس تم بہت آمین کہا کرو۔ المعالم ۲۲۴/۱

 یہ حدیث ابن ماجہ میں ہے، اس کی سند گو کہ ضعیف ہے لیکن شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ نیز صرف ساتھ والے کے آمین سننے کا کوئی ثبوت نہیں، یہ بلا دلیل بات ہے ۔ اہل حدیث کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا کج روی کا نتیجہ ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ رب العزت جملہ اہل اسلام میں صحیح فہم پیدا فرمائے۔ آمین۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:422

محدث فتویٰ

تبصرے