سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(480) تیسری رکعت میں ملنے والا مقتدی اپنی پہلی دو رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ ملائے یا نہ؟

  • 24490
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 782

سوال

(480) تیسری رکعت میں ملنے والا مقتدی اپنی پہلی دو رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ ملائے یا نہ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کوئی شخص اگر چار رکعت والی نماز میں امام کے ساتھ تشہد کے بعد آخری دو رکعات پائے ،تو ان دو فوت شدہ رکعتوں میں اُسے سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت پڑھنی چاہیے یا صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا کافی ہے۔کیونکہ اس مسئلے میں بعض حضرات سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت پڑھنا ضروری کہتے ہیں۔ مگر ہمارے بعض لوگ صرف سورۃ فاتحہ کافی سمجھتے ہیں۔ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح جواب عنایت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’صحیح بخاری  رحمہ اللہ  وغیرہ میں حدیث ہے، کہ ’’جتنی نماز امام کے ساتھ پائو پڑھو اور جتنی فوت ہو جائے پوری کرو۔‘‘ صحیح البخاری،بَابُ قَولِ الرَّجُلِ: فَاتَتنَا الصَّلاَۃُ،رقم:۶۳۵

اس حدیث سے معلوم ہواکہ مسبوق (مقتدی) امام کے سلام پھیرنے کے بعد جتنی نماز پڑھتا ہے ،وہ اس کی باقی ماندہ نماز ہے اور جو امام کے ساتھ پڑھی ہے وہ اس کی پہلی نمازہے کیونکہ اس حدیث میں فوت شدہ کی بابت‘‘مکمل کرنے‘‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی آخر سے پورا کرنے کے ہیں اورآخر سے پورا کرنا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جو نماز امام کی فراغت کے بعد پڑھے وہ اس کی آخری ہو۔ اور بعض روایتوں میں‘‘اتمام ’’(مکمل کرنا )کی جگہ ’’قضا ’’کالفظ آیا ہے ، تویہ اس کے خلاف نہیں کیونکہ قضا کے معنی پورا کرنے کے بھی آئے ہیں ۔  جیسے قرآن مجید میں ہے۔

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ...﴿١٠﴾... سورة الجمعة

 یعنی ’’جب نماز پوری ہو جائے، تو پھر روزی کی تلاش میں پھیل جائو۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: کہ ان دو لفظوں کے مطابق جمہور کا عمل ہے۔ انہوں نے کہا:

’ إن ما ادرك الماموم هو اول صلاته إلا انه یقضی مثل الذی فاته من قراءة السورة مع امّ القرآن فی الرباعیة لکن لم یستحبوا به إعادة الجهر فی الرکعتین الباقیتین وکان الحجة فیه قوله ما ادرکت مع الإمام فهو اول صلاتك واقض ما سبقك به من القرآن۔ اخرجه البیهقی وعن إسحق والمزنی لا یقرا الامام القرآن فقط وهو القیاس‘فتح الباری :۲؍۱۱۹

اس سے معلوم ہوا کہ جمہور کا مسلک یہ ہے، کہ مقتدی جو دو رکعتیں بعد میں پڑھے، ان میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے، کہ مأموم نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ پائے، وہ اس کی پہلی نماز ہے، اور جوچیز قرآن سے فوت ہو جائے اس کی قضاء دے۔ تاہم اس میں جَہری قرأت نہیں۔ہاں البتہ اسحاق اور مزنی کا خیال ہے، کہ صرف ’’فاتحہ‘‘ پڑھے۔ قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن بالا دلیل کی رُو سے ترجیح پہلے مسلک کو ہے اور دوسرے کا صرف جواز ہے۔ کیونکہ ’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ سورت ملانا ضروری نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے:

’ وَ اِن لَم تَزِد عَلٰی اُمِّ القُراٰنِ اَجَزتَ…الخ ‘مرعاة المصابِیح: ۱؍۵۸۷

‘‘اگر تو فاتحہ کے ساتھ کوئی او رسورۃ ملائے تو کفایت کرجائے گی‘‘۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:408

محدث فتویٰ

تبصرے