سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(449) نیت دل سے یا زبان سے کریں؟

  • 24459
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1012

سوال

(449) نیت دل سے یا زبان سے کریں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو دل ہی دل میں بغیر زبان ہلائے یہ دہرا لیتا ہوں کہ آج کی فلاں نماز(مثلاً مغرب) کے فرض یا سنتیں ادا کر رہا ہوں یا صلوٰۃ الحاجت پڑھ رہا ہوں یا صلوٰۃ استخارہ وغیرہ۔ یہ بدعت تو نہیں۔ نیز دل میں نیت کرتے وقت کیا کیا دل میں لانا ضروری ہے۔(یعنی نماز کا وقت، استقبال کعبہ وغیرہ) جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دل کے پختہ ارادہ کا نام نیت ہے۔ اقامت ِ نماز کے لیے صرف موجود فی الذہن نماز کا تصور ہی کافی ہے۔ مزید کسی شے کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ  نے فرمایا ہے: کہ ’’نیت کا معنی ’’قصد‘‘ اور دل کا پختہ ’’ارادہ‘‘ ہے اور امام بیضاوی نے کہا ہے کہ ’’نیت‘‘ سے مراد: ’’دل کا اس چیز کی طرف اٹھنا جس کو وہ اپنی کسی غرض کے موافق سمجھے، جو حصولِ نفع یا دفعِ ضرر کے لیے اس وقت ہو یا کبھی آئندہ۔‘‘اور شریعت میں نیت اس ارادے کو کہتے ہیں، جو اﷲ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل کے لیے کسی کام میں اٹھے۔ نیل الأوطار:۱۴۸/۱

علامہ ابن القیم’’زاد المعاد‘‘ میں فرماتے ہیں: نبی اکرمﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کہتے ۔ اس سے پہلے کچھ نہ کہتے۔ آپﷺ نے کبھی زبان سے نیت کا لفظ نہیں بولا اور نہ کبھی یہ کہا کہ میں اﷲ کے لیے پڑھتا ہوں، فلاں نماز قِبلہ رُخ ہو کر چار رکعت۔ امام یا مقتدی بن کر ،ا داء یا قضاء ، وقتی فرض(ظہر عصر وغیرہ) اور یہ دس بدعتیں ہیں۔ رسول اﷲﷺ سے کسی نے کبھی صحیح یا ضعیف، مرسل یا متصل قطعاً کوئی لفظ نقل نہیں کیا بلکہ کسی صحابی سے بھی نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:386

محدث فتویٰ

تبصرے