السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماراگاؤں ’’یوگو‘‘ پورے بلتستان میں %۱۰۰ ۔اہل حدیث آبادی والا گاؤں ہے ۔ مسلم عرب این جی اوز(NGOs) ہر سال جامعہ دارالعلوم بلتستان کے توسط سے پورے بلتستان کے اہلِ حدیث حضرات میں قربانی کے جانور تقسیم کرتی ہیں۔ہمارے گاؤں کے تمام لوگ اہلِ حدیث ہونے کے باوجود دو سیاسی دھڑوں میںتقسیم ہیں۔ دارالعلوم غواڑی کی طرف سے قربانی کے جانور جس پارٹی کے سپرد کیے جاتے ہیں، وہ لوگ ان کو پورے گاؤں پرتقسیم کرنے کی بجائے صرف اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اگر کوئی مفلس نادار،بیوہ ، غریب، ضرورت مند لوگ ان کے پاس قربانی کا گوشت مانگنے کے لیے جائیں تو ان کو دھتکار دیتے ہیں ، محض اسی لیے کہ ان کی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔علاوہ ازیں وہ آپس میں بھی انصاف نہیں کرتے۔ غرباء و مساکین کو اوجھڑی، انتڑیاں اور چھیچھڑے دیتے ہیں جب کہ اچھا اور صاف گوشت اپنی پارٹ کے بڑے لوگوں کے گھروں میں بھیج دیتے ہیں اور اس کا م میں گاؤں کاامام اور خطیب بھی برابر کا شریک ہوتا ہے۔ دارالعلوم کے ارباب حل و عقداختیارات رکھنے کے باوجود اس کام پر خاموش رہتے ہیں، کیا اس ناانصافی میں وہ برابر کے شریک نہیں؟ ایسے امام وخطیب کو منصب ِ امامت و خطابت پر فائز رہنا چاہیے یا نہیں اور یہ کہ ایسے امام کے پیچھے جمعہ و نماز پڑھنا کیسا ہے؟نماز کا کیا ہو گا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’اَلدِّینُ النَّصِیحَة ‘صحیح مسلم، بَابُ بَیَانِ أَنَّ الدِّینَ النَّصِیحَةُ ، رقم:۵۵" کے پیشِ نظر صورتِ حال سے اصل ذمہ داروں کو آگاہ کرنا چاہیے، کہ وہ اس کوتاہی کے ازالے کی طرف توجہ دیں اور جو لوگ اس کوتاہی میں ملوث ہیں، بطریقِ احسن ان سے بھی بات چیت ہونی چاہیے۔ ممکن ہے کہ اصلاحِ احوال کا کوئی پہلو نکل سکے، تاہم اس امام اور اس قبیل کے لوگوں کی اقتداء میں نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔ ’’صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’ اَلصَّلَاةُ اَحسَنُ مَا یَعمَلُ النَّاسُ، فَإِذَا أَحسَنَ النَّاسُ، فَاَحسِن مَعَهُم، وَإِذَا اَسَاؤُوا فَاجتَنِب إِسَاءَتَهُم‘صحیح البخاری، باب امامة المفتون والمبتدع،رقم:۶۹۵
’’لوگوں کا سب سے بہتر عمل نماز ہے ، چنانچہ ان کے تمام نیک کاموں میں شریک رہو اور اگر وہ کوئی برائی کریں تو برائی سے اجتناب کرو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب