السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد کی خطابت کے لیے موجودہ زمانے میں کیا کوئی علمی معیار ہونا چاہیے یا نہیں؟ ایسا آدمی جو نہ تو کسی مدرسہ کا پڑھا ہو اور نہ ہی اس نے باقاعدہ کسی معلم سے دین کا علم سیکھا ہو، حتی کہ دنیاوی تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو، خطابت کے فرائض انجام دے سکتا ہے؟
ایک صاحب جو سکول میںساتویں یا آٹھویں جماعت تک پڑھ سکے اور غالباً اس نے دینی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی، ترجمہ قرآن تک نہیں جانتے، پیشہ کے اعتبار سے درزی(ٹیلر ماسٹر) تھے۔تقریباً ۵ برس سعودی عرب میں اسی حیثیت سے ملازمت بھی کرتے رہے ابتدائً کچھ عرصہ تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک رہے ہیں اس لیے کچھ بول سکتے ہیں آج کل ایک مسجد کے خطیب بن بیٹھے ہیں ۔ کیا ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا اور انھیں خطابت کی ذمہ داری سونپنا درست ہے ؟ جو لوگ اس کام میں ان کے ممد و معاون ہیں ان کے بارے اور خود خطیب موصوف کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نماز کی امامت کے لیے پہلی شرط قرآن کا زیادہ جاننا ہے کیا ایک حافظ قاری کی موجودگی میں ایک جاہل شخص کا از خود امامت کے لیے آگے بڑھنا اور امامت کا فریضہ ادا کرنا درست ہے؟
کافی عرصہ پہلے ایک خطیب صاحب سے یہ روایت سنی تھی کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو وعظ کرتے سنا تو اس سے دریافت کیا کہ کیا تم ناسخ و منسوخ کا علم جانتے ہو؟ جواباً اس نے نفی کا اظہار کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : ’’ وعظ نہ کرو خود بھی گمراہ ہو گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرو گے۔‘‘ کیا یہ روایت درست ہے ؟ حوالہ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نااہل لوگ خطابت و امامت کے قطعاً حقدار نہیں صحیح حدیث میں ہے:
’ اِذَا وُسِّدَ الاَمرُ اِلٰی غَیرِ اَهلِهٖ، فَانتَظِرِ السَّاعَةَ۔‘
یعنی ’’ معاملات جب نا اہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں، تو قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘
اس کے ہم معنی اور بھی بہت ساری روایات ہیں، جو کتب احادیث کی طرف مراجعت سے بآسانی دستیاب ہو سکتی ہیں۔ اہلِ علم کے لائق نہیں کہ جاہلوں کے لیے ممد و معاون بنیں۔ ورنہ اس جرم میں وہ بھی شریک کار سمجھے جائیں گے ۔ اہل کی موجودگی میں نااہل کو فرائض کی ادائیگی کے لیے آگے کرنا امانت میں خیانت ہے، جو جرم عظیم ہے۔قرآن میں ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ یَامُرُکُم اَن تُؤَدُّوا الاَمَانَاتِ اِلٰی اَهلِهَا﴾
’’اﷲ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔‘‘
اہل کی موجودگی میں نا اہل کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔بصورت دیگر منتظمین و معاونین حضرات سب کے سب عدالتِ الٰہی میں جو ابدہ ہوں گے۔ خطرہ ہے کہ کہیں نمازیں ضائع نہ ہو جائیں۔ پھر علماء کے بھی لائق نہیں کہ جرم یا گناہ ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کریں۔ قیامت کے دن ہر آدمی سے اس کی ذمہ داری کی باز پرس ہو گی۔ اﷲ رب العزت ہم میں فہمِ دین پیدا فرما کر فرائض کی ادائیگی کی کما حقہ توفیق بخشے۔ آمین!حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول علامہ بدر الدین زرکشی کی کتاب’’ البرھان فی علوم القرآن‘‘ میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو!(۳۴/۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب