السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کوئی جھوٹی قسم اٹھا کر ناحق اور بے گناہ آدمیوں کو مجرم بنائے ، جن کی سزا موت ہے، اور ۲۵ہزار روپے لے کر سچی بات کہے اور اس کی اس حرکت کے باعث شر پیدا ہو اور دیہات کے لوگ دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں۔ ایسا امام مسجد امامت کے قابل ہے اور اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ صفات کے حامل شخص کو فوراً امامت سے معزول کردینا چاہیے۔ ’’دارقطنی‘‘ میں حدیث ہے:
’اِجعَلُوا اَئِمَتَکُم خِیَارَکُم‘(سنن الدارقطنی،بَابُ تَخفِیفِ القِرَاءَةِ لِحَاجَةٍ،رقم:۱۸۸۱)
یعنی ’’ امام بہتر لوگوں کو بنایا کرو۔‘‘
اسی طرح ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ میں حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قبلہ کی طرف تھوکنے پر امامت سے معزول کردیا تھا۔ سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی کَرَاہِیَۃِ الْبُزَاقِ فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۴۸۱
مرقوم وجوہات کی بناء پر مذکورہ شخص بہت بڑا مجرم ہے۔ اس کو فی الفور مصلائے امامت سے علیحدہ کردیا جائے اور اگر وہ زبردستی مصلائے امامت سے چمٹا رہے، اور مقتدی ہٹانے پر قادر نہ ہوں تو اس صورت میں مقتدی مجرم نہیں، اور نہ ان کی نماز میں کوئی خلل آئے گا۔ ان شاء اﷲ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب