کیا مسجد میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر ایسی اشیاء کا اعلان کیا جا سکتا ہے، جو احاطہ مسجد سے باہر گم ہوئی ہوں، یا اگر مسجد کے احاطہ میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر کوئی دکاندار اپنی اشیاء فروخت کرنے کا اعلان کرے، اور اس طرح اعلان کرانے کا ہدیہ وصول ہو، تو کیا یہ رقم مسجد پر صرف کرنا جائز ہے؟
__________________________________________________________
حدیث میں (ضالَّه) (گم شدہ جانور) کا اعلان مسجد میں کرنا صراحتا ً منع فرمایا ہے اور لُقطہ یعنی غیر جاندار گم شدہ چیز کا ذکر حدیث میں صراحتا ً نہیں، لیکن جو چیز مسجد سے باہر گم ہوئی ہو مسجد میں اس کے اعلان کا وہی حکم ہے جو (ضالَّه) کا ہے۔ کیوں کہ مسجد میں (ضالَّه) کا اعلان منع ہونے کی وجہ حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں ہیں، یہ وجہ غیر جاندار میں بھی موجود ہے۔ ہاں جو چیز مسجد میں گم ہوئی ہو، اس کے متعلق غالب ظن یہی ہوتا ہے۔ کہ مسجد کے نمازیوں میں سے کسی کے ہاتھ آئی ہو گی۔ اور اعلان خواہ لاؤڈ سپیکر پر ہو یا اس کے بغیر اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یعنی اعلان بغیر لاؤڈ سپیکر کے ناجائز ہے وہ لاؤڈ سپیکر پر بھی ناجائز ہے۔ جب (ضالَّه) اور لُقطہه جو مسجدسے باہر ہو اس کا اعلان مسجد میں ناجائز ہے تو فروختگی اشیاء کا اعلان مسجد میں کیسے جائز ہو گا؟ اور جب اعلان ناجائز ہوا تو اس پر کرایہ لینا اور اس کو مسجد پر صرف کرنا بھی ناجائز ہوگا۔
ہاں اس کی یہ صورت ہو سکتی ہے۔ کہ لاؤڈ سپیکر یا مسجد کی کوئی چیز، شامیانہ وغیرہ باہر لے جا کر کرایہ پر استعمال کرے اور وہ کرایہ مسجد پر صرف کیا جائے ۔ تو کوئی حرج نہیں۔
(نوٹ) یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فروختنی اشیاء دو طرح کی ہیں۔ ایک دینی اور ایک دنیوی۔ جیسے کوئی بات لکھے اور اس کا اعلان مسجد میں کر دے تو یہ دینی تبلیغ ہے۔ اس کی اجازت ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ مسجدیں دین کے لیے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی فوج وغیرہ بھیجنی ہوتی یا اور کسی قسم کا کوئی دینی کام ہوتا، تو اس کا اعلان مسجد میں خطبہ کے اندر فرما دیتے۔
صرف یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس میں اپنا ذاتی مفاد بھی ہے۔ مگر یہ مفاد بالتبع ہے۔ اصل مقصد نہیں۔ اس کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے، جیسے جنگ میں مالِ غنیمت یا دیگر مفادات کی
امید رکھی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد اعلاء کلمۃ اللّٰہ ہے اور مال کی امید بالتبع ہے۔ اس لیے یہ چیز نقصان دہ نہیں۔