سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

خطبے کے دوران سامعین کابآوازبلندتکبیر و تسبیح کہنا

  • 244
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 958

سوال

خطبے کے دوران سامعین کابآوازبلندتکبیر و تسبیح کہنا

سوال1:جمعہ کی نماز میں خطبے کے دوران ایسی بات کہہ دے جس پر،سبحان اللہ ،الحمدللہ،اللہ اکبر،لا الہ الا اللہ،استغفراللہ،لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا جائے تو کیا جائز ہے۔کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جمعہ کے خطبے کے دوران دو آدمی بات کر رہے ہوں تو تیسرا اگر

جواب: شیخ صالح المنجد سے اس بارے جب سوال ہوا تو انہوں نے یوں جواب دیا:
جمعہ كے روز دوران خطبہ خاموش رہنے اور كلام كرنے كا حكم
سوال: ميں نماز جمعہ كى ادائيگى كے ليے گيا، ليكن جب بھى كوئى نماز مسجد ميں آيا اس نے سلام كيا اور نمازيوں نے سلام كا جواب ديا، بلكہ جو شخص قرآن مجيد كى تلاوت كر رہا تھا اس نے بھى سلام كا جواب ديا، اور جب خطبہ شروع ہوا تو بعد ميں آنے والے نمازى نے سلام كيا اور خطيب نے آہستہ سے اس كا جواب ديا، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
الحمد للہ :
دوران خطبہ آنے والے شخص كو خاموش رہا چاہيے، اور كسى دوسرے كے ساتھ كلام كرنا جائز نہيں، حتى كہ كسى شخص كو خاموش كرانے كے ليے بھى كلام نہيں كى جا سكتى، جو شخص بھى ايسا كرتا ہے، اس نے لغو اور فضول كام كيا، اور جس شخص نے فضول اور لغو كام كيا اس كا جمعہ ہى نہيں ہوا۔
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جمعہ كے روز خطيب كے خطبہ كے دوران اگر آپ نے اپنے ساتھى خاموش ہونے كا كہا تو آپ نے لغو اور فضول كام كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 892 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 851 )۔
اور اسى طرح شرعى سوال كا جواب دينا بھى ممنوع ہے، چہ جائيكہ كسى دنياوى امور ميں كلام كى جائے۔
ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور لوگوں كو خطاب كرنے لگے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك آيت تلاوت كى اور ميرے پہلو ميں ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيٹھے ہوئے تھے، ميں نے انہيں كہا:
اے ابى ذرا يہ تو بتاؤ كہ يہ آيت كب نازل ہوئى تھى ؟
تو ابى رضى اللہ تعالى نے ميرے ساتھ بات كرنے سے انكار كر ديا، ميں نے پھر ان سے دريافت كيا تو انہوں نے مجھ سے بات نہ كى، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر سے نيچے اتر آئے تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ مجھ سے كہنے لگے:
آپ كو اس جمعہ سے كچھ حاصل نہيں ہوا سوائے اس كے جو آپ نے لغو كام كيا ہے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جمعہ سے فارغ ہو چكے تو ميں نے آكر انہيں يہ سب كچھ بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" ابى بن كعب نے سچ كہا ہے، جب تم اپنے امام كو خطبہ ديتے ہوئے سنو تو اس كے خطبہ سے فارغ ہو نے تك خاموشى اختيار كرو"
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1111 ) مسند احمد حديث نمبر ( 20780 ) بوصيرى اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے تمام المنة صفحہ نمبر ( 338 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔
يہ حديث جمعہ كے روز امام كے خطبہ كے دوران خاموش رہنے، اور كلام كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہےز
ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ہر علاقے كے فقہاء ميں خطبہ سننے والے كے ليے دوران خطبہ خاموش رہنے كے وجوب ميں كوئى اختلاف نہيں۔
ديكھيں: الاستذكار ( 5 / 43 )۔
بعض نے شذوذ اختيار كرتے ہوئے وجوب كى مخالفت كى ہے، اور ان كے پاس اس كى كوئى دليل نہيں۔
خطبہ ميں خاموش رہنے كے حكم كے متعلق ابن رشد رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
" اور جو اسے واجب قرار نہيں ديتا، ميرے علم ميں تو ان كا كوئى شبہ نہيں، صرف اتنا ہے كہ ان كے خيال ميں مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں دليل خطاب معارض ہو:
﴿اور جب قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو تم اسے سنو اور خاموش رہو﴾۔
يعنى قرآن كے علاوہ كسى ميں خاموش رہنا واجب نہيں، اور اس قول ميں ضعف ہے, واللہ اعلم۔
اور معلوم يہ ہوتا ہے كہ ان تك يہ حديث نہيں پہنچى ہو گى۔
ديكھيں: بدايةالمجتھد ( 1 / 389 )۔
ضرورت يا مصلحت كى خاطر اس سے نمازيوں كا امام كے ساتھ اور امام كا نمازيوں كے ساتھ كلام كرنا استنثنى ہے۔
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں لوگ قحط سالى كا شكار ہو گئے، ايك روز جمعہ كے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك اعرابى شخص كھڑا ہو كر كہنے لگا:اے اللہ تعالى كے رسول مال و جانور ہلاك ہو رہے ہيں، اور بچے بھوكے ہيں، اللہ تعالى سے ہمارے ليے دعاء فرمائيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ بلند كيے....اس دن بارش ہوئى اور اس كے دوسرے اور تيسرے دن اور چوتھے دن حتى كہ اگلے جمعہ تك بارش ہوتى رہى، اور وہى يا كوئى اور اعرابى كھڑا ہو كر كہنے لگا:اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم گھر منہدم ہو رہے ہيں، اور مال غرق ہونے لگا ہے، اللہ تعالى سے ہمارے ليے دعا فرمائيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ بلند فرمائے...
صحيح بخارى حديث نمبر ( 891 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 897 )۔
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك شخص آيا اور بيٹھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اے فلان كيا تم نے نماز ( تحيۃ المسجد ) ادا كى ہے ؟ تو اس نے نفى ميں جواب ديا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اٹھ كر دو ركعت ادا كرو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 888 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 875 )۔
اس طرح كى احاديث سے جس نے نمازيوں كا آپس ميں كلام كرنے اور خاموش نہ رہنے پر استدلال يا ہے اس كا استدلال صحيح نہيں۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور انہوں نے جو اس سے حجت پكڑى ہے: احتمال ہے كہ يہ امام كے ساتھ كلام كرنے والے كے ساتھ خاص ہو، يا پھر جس سے امام كلام كرے؛ كيونكہ اس سے خطبہ سننے ميں كوئى خلل پيدا نہيں ہوتا، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سوال كيا تھا:" كيا تم نے نماز پڑھى ہے ؟ " تو اس شخص نے جواب ديا۔اور دوران خطبہ عثمان رضى اللہ تعالى كے آنے پر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان سے دريافت كيا تو انہوں نے جواب ديا۔تو سب احاديث ميں جمع اور موافقت كرتے ہوئے اس پرمحمول متعين ہوا، اور كسى غير كا اس پر قياس صحيح نہيں، كيونكہ امام كى دوران خطبہ كلام نہيں ہوتى، كسى دوسرے كے خلاف "۔
ديكھيں: المغنى ( 2 / 85 )۔
اور رہا مسئلہ چھينك والے اور سلام كا دوران خطبہ جواب دينا، تو اس ميں اہل علم كا اختلاف ہے:
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى " سنن ترمذى " ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث: " جب تو نے اپنے ساتھ كو خاموش ہونے كا كہا ..... "
ذكركرنے كے بعد كہتے ہيں:
چھينك اور سلام كا جواب دينے ميں اختلاف كيا ہے، بعض اہل علم نے خطيب كے دوران خطبہ چھينك والے اور سلام كا جواب دينے كى رخصت دى ہے، امام احمد، اسحاق رحمہما اللہ قول يہى ہے۔اور تابعين وغيرہ ميں بعض اہل علم نے اسے ناپسند كيا ہے، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول يہى ہے۔
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق دوران خطبہ چھينكنے والے اور سلام كا جواب دينا جائز نہيں، ان دونوں سے كلام ہوئى ہے، اور حديث كے عموم كے مطابق دوران خطبہ كلام ممنوع ہے"۔
ديكھيں: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء ( 8 / 242 )۔
اور ايك دوسرے فتوى ميں ہے:
" جمعہ كے روز دوران خطبہ آنے والا شخص جب خطبہ سن رہا ہو تو اس كے ليے سلام كى ابتدا كرنى جائز نہيں، اور دوران خطبہ مسجد ميں بيٹھے ہوئے افراد كے ليے بھى سلام كا جواب دينا جائز نہيں"۔
ديكھيں: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء ( 8 / 243 )۔
اور ايك دوسرے فتوى ميں ہے:
جب خطيب جمعہ كا خطبہ دے رہا ہو تو دوران خطبہ كلام كرنا جائز نہيں، ليكن كسى سبب كى بنا پر اگر كسى شخص سے خطيب مخاطب ہو تو وہ كلام كر سكتا ہے "۔
ديكھيں: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء ( 8 / 244 )۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" دوران خطبہ سلام كرنا حرام ہے، اس ليے دوران خطبہ مسجد ميں آنے والے شخص كے ليے سلام كرنا جائز نہيں ہے، اور سلام كا جواب دينا بھى حرام ہے "۔ـ
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 100 )۔
اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر كوئى قائل يہ كہے: " خاموش رہو" يہ لغوى طور پر تو لغو اور فضول شمار نہيں ہو گا، كيونہ يہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ميں شامل ہوتا ہے، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے لغو اور ناجائز قرار ديا، يہ اہم كى ترجيح كے ليے ہے، وہ يہ كہ خطبہ كے ليے خاموشى اختيار كى جائے يہ دوران خطبہ امر بالمعروف سے زيادہ اہم ہے۔اور اگر معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر جو چيز بھى امر بالمعروف كے مرتبہ ميں ہو اس كا حكم بھى امر بالمعروف والا ہى ہو گا، اور اگر وہ چيز رتبہ ميں اس سے كم ہو تو وہ كيسے ؟ اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ بالاولى اور زيادہ ممانعت كے لائق ہو گى اور شرعا يہ لغو اور فضول ہے۔
ديكھيں: الاجوبة النافعةصفحہ ( 45 )۔
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خطبہ جمعہ ميں حاضر ہونے والے شخص پر امام كا خطبہ سننا اور خاموش رہنا واجب ہے، اس كے ليے دوران خطبہ كلام كرنا جائز نہيں، ليكن جو شرعى دليل ميں خطيب كے ساتھ كلام كرنا استثناء ہے يا امام كى كلام كا جواب دينا، يا جس كى ضرورت پيش آجائے، مثلا كسى اندھے كو گرنے سے بچانا وغيرہ۔
سلام كرنا اور سلام كا جواب دينا بھى اسى ممانعت ميں شامل ہے، كيونكہ امام كے ساتھ بھى اس كلام كى اجازت ہے جس ميں كوئى مصلحت يا ضرورت ہو، اور سلام كرنا اور اس كا جواب دينا اس ميں شامل نہيں۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" امام كے ليے بغير كسى مصلحت كے مقتدى سے كلام كرنا جائز نہيں لہذا مصلحت كا نماز وغيرہ جس كے متعلق كلام كرنا بہتر ہو كا ہونا ضرورى ہے، ليكن اگر امام بغير كسى مصلحت كے كلام كرتا ہے تو يہ جائز نہيں۔اور اگر كسى ضرورت اور حاجت كى بنا پر ہو يہ بالاولى جائز ہے، ضرورت ميں يہ ہے كہ دوران خطبہ سامع پر كسى جملہ كا معنى مخفى رہ جائے تو وہ سوال كر سكتا ہے، اور يہ بھى ضرورت ميں شامل ہے كہ: امام اور خطيب كسى آيت ميں غلطى كر رہا ہے جس سے معنى بدل جائے، مثلا آيت كا كچھ حصہ ہى رہ جائے وغير تو مقتدى اس كى تصحيح كر سكتا ہے۔اور مصلحت حاجت اور ضرورت كے علاوہ ہے، مثلا لاؤڈ سپيكر كى آواز خراب ہو جائے تو امام بول كر سپيكر صحيح كرنے والے كو مخاطب كر سكتا ہے، كہ لاؤڈ سپيكر كو ديكھيں كيا خرابى پيدا ہوئى ہے "۔
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 140 )۔
واللہ اعلم ۔
الاسلام سوال وجواب

تبصرے