سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(355) نماز باجماعت میں شامل ہونے والا پہلی صف میں کسی نمازی کو کھینچ لے؟

  • 24365
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 714

سوال

(355) نماز باجماعت میں شامل ہونے والا پہلی صف میں کسی نمازی کو کھینچ لے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر پہلی صف مکمل ہو چکی ہو تو بعد میں آنے والا اکیلا نماز پڑھے یا اگلی صف سے نمازی کو کھینچ لے؟ اگر کھینچے تو کیا صف کے درمیان سے یا صف کے سرے سے؟ ہم سکول میں نمازِ ظہر باجماعت ادا کرتے ہیں ایک قاری صاحب کا موقف ہے کہ بعد میں آنے والا اکیلا ہی نماز پڑھے ۔ اگر اگلی صف سے آدمی کھینچنا ہے تو صف کے سرے سے کھینچے جب کہ میرا موقف یہ تھا کہ صف کے درمیان سے کھینچے۔ قاری صاحب کا کہنا ہے کہ اگر درمیان سے کھینچے تو مذکورہ آدمی کا خلا ویسے ہی رہنے دیا جائے پُر نہ کیاجائے۔ صحیح موقف کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکیلا صف کے پیچھے اگلی صف کے درمیان سے کسی کو کھینچے۔ کیونکہ حدیث میں ہے:

’ وَسِّطُوا الاِمَامَ وَسُدُّوا الخَلَل ‘ (رواه ابوداؤد، مُنتقٰی، بَابُ وُقُوفِ الاِمَامِ تِلقَاءِ وَسطِ الصَّف) سنن أبی داؤد،بَابُ مَقَامِ الْإِمَامِ مِنَ الصَّفِّ، رقم:۶۸۱

’’امام کو درمیان کرو اور خلل بند کرو۔‘‘

اس حدیث میں امام کو درمیان رکھنے کا اشارہ ہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ درمیان سے آدمی کھینچے۔ کیونکہ کنارہ سے کھینچنے کی صورت میں اگر کنارہ میں کھڑا ہوجائے تو اس حدیث کا خلاف لازم آتا ہے اور اگر کھینچ کر درمیان لائے تو ضرورت سے زیادہ حرکت لازم آتی ہے۔ رہا درمیان میں خلل پیدا ہونا، سواس کے متعلق’’سُدُّوا الخَلَل ‘‘ کا ارشاد اسی حدیث میں موجود ہے ۔ بقیہ صف اس ارشاد کے تحت خلل کو خود ہی بند کرے گی۔ اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے، کہ ہر ایک کو تھوڑی تھوڑی حرکت کرنی پڑے گی جس سے نماز میں کچھ خلل نہیں آتا، اور کنارہ سے کھینچ کر درمیان لانے سے تو بعض دفعہ بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے، جو بظاہر نماز کی شان کے خلاف ہے اور ہر ایک نمازی کا تھوڑا سرکنا منافی نہیں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ درمیان میں سے کھینچے نہ کہ کنارہ سے۔(فتاویٰ أہل حدیث:۲۷۷/۲) اس بارے میں علامہ البانی کا موقف یہ ہے، کہ اکیلا ہی نماز پڑھ لے۔ الإرواء:۳۲۹/۲

اورشیخ ابن باز فرماتے ہیں: ’’صف میں جگہ تلاش کرے یا امام کی دائیں جانب کھڑا ہو جائے۔‘‘ ہوامش فتح الباری:۲۱۳/۲

مسئلہ ہذا میں میرا رجحان پہلے مسلک کی طرف ہے۔ کیونکہ اکیلے کھڑے ہونے سے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم    نے منع فرمایا ہے۔( سنن أبی داؤد،بَابُ الرَّجُلِ یُصَلِّی وَحْدَہُ خَلْفَ الصَّفِّ ،رقم:۶۸۲)دوسرا ، فعل ہذا مطلوب صف بندی کے بھی منافی ہے، پھر شریعت نے اکیلی عورت کو صف قرار دیا ہے۔ بخلافِ مرد کے اس کے لیے ایسی کوئی نص موجود نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ کھینچنے والی حدیث ضعیف ہے۔ سو اس بارے میں تفصیلی بحث ’’الاعتصام‘‘ میں پہلے شائع ہو چکی ہے۔ کھنچنے کی تائید قصۂ ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بھی ہوتی ہے جب کہ وہ نمازِتہجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم    کے بائیں طرف کھڑے ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر کر دائیں طرف کردیا تھا۔ صحیح البخاری، بَابٌ: یَقُومُ عَنْ یَمِینِ الإِمَامِ، بِحِذَائِہِ سَوَاء ً إِذَا کَانَا اثْنَیْنِ ،رقم:۶۹۷

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:327

محدث فتویٰ

تبصرے