سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) نمازی کے آگے سے گزرنے کے لیے کم از کم فاصلہ

  • 24315
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 541

سوال

(305) نمازی کے آگے سے گزرنے کے لیے کم از کم فاصلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازی کے آگے سے گزرنے کے لیے کم از کم کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟ کیا شریعت نے چھوٹی بڑی مساجد کے لیے الگ الگ اصول وضع کیے ہیں؟ نیز نمازی کے بالکل سامنے بیٹھا ہوا شخص نمازی کے سلام پھیرنے کا انتظار کرے یا دائیں بائیں جہاں سے چاہے گزر جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جائے سجود چھوڑ کر آگے سے گزرنے کا جواز ہے۔ صاحب ’’سبل السلام‘‘ فرماتے ہیں:

’وَالحَدِیثُ دَلِیلٌ عَلٰی تَحرِیمِ المُرورِ اَی مَا بَینَ مَوضِعِ جَبهَتَهِ فِی سُجُودِهٖ، وَ قَدَمَیهِ  ‘ (۱۴۲/۱)

اور ’’بَینَ یَدَیِ المُصَلِّی‘‘ کی تشریح میں ’’فتح الباری‘‘(۵۸۵/۱) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’ أَی اَمَامَهٗ بِالقُرُبِ مِنهُ۔ وَ عَبَّرَ بِالیَدَینِ: لِکَونِ أَکثِرُ الشُّغلِ یَقَعُ بِهِمَا۔ وَاختُلِفَ فِی تَحدِیدِ ذٰلِكَ۔ فَقِیلَ : إِذَا مَرَّ بَینَهٗ وَ بَینَ مِقدَارِ سُجُودِهٖ۔ وَ قِیلِ : بَینَهٗ، وَ بَینَ قَدرِ ثَلٰثَةِ اَذرُعٍ۔ وَ قِیلَ: بَینَهٗ، وَ بَینَ قَدرِ رَمیَةٍ بَحَجَرٍ۔‘

یعنی سامنے سے نمازی کے قریب سے نہیں گزرنا چاہیے، اور دو ہاتھوں سے تعبیر اس لیے کی گئی ہے کہ بیشتر کام ان سے سرانجام پاتے ہیں، اور اس کی حد بندی میں تین اقوال ہیں۔(۱) جائے سجود تک(۲) تین ہاتھ(۳) پتھر پھینکنے کے بقدر۔

پہلا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بیہقی کی روایت میں سَر کو نیچے رکھنے اور نگاہ کو زمین کی طرف کرنے کا ذکر ہے اور دوسرا مسلک بھی قریب ہے، کیونکہ بعض روایات میں سُترہ کا درمیانی فاصلہ، تین ہاتھ تک بیان ہوا ہے اور تیسرا مسلک کمزور ہے، کیونکہ اس بارے میں وارد حدیث سخت ضعیف ہے۔ امام ابوداؤد نے محمد بن اسماعیل کی وجہ سے اس کو منکر قرار دیا ہے۔ یاد رہے سُترہ کے اعتبار سے چھوٹی بڑی مسجد کا کوئی فرق نہیں۔نمازی کے سامنے بیٹھا ہوا انسان دائیں بائیں ہٹ کر جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ نمازی کے لیے تشویش کا باعث نہ بنے۔ ورنہ یہ بھی گزرنے کے معنی میں ہوگا ،جس سے حدیث میں واضح طور پر روکا گیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:295

محدث فتویٰ

تبصرے