سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(151) مسجد کے محراب کا حکم

  • 2431
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4614

سوال

(151) مسجد کے محراب کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتا ہے کہ مسجد میں محراب بنانا درست ہے اور ثبوت یہ دیتا ہے کہ مسجد نبوی بھی محراب ہے، بکر کہتا ہے کہ مسجدوں میں محرابیں بنانا بدعت ہے کیونکہ یہ دوسری صدی ہجری میں رائج ہوئیں اور یہ حدیث شریف پیش کرتا ہے کہ فرمایا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری امت ہمیشہ بھلائی پر رہے گی جب تک کہ وہ اپنی مسجدوں میں نصاریٰ کی طرح محراب نہ بنائیں گے۔
____________________________________________________________________________

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نصاریٰ کا محراب درمیان میں اس طرح کا ہوتا ہے اس میں واعظ کھڑا ہو کر وعظ کہتا ہے مساجد میں محراب ایسے نہیں ہوتے لہٰذا حدیث مذکور ان محرابوں پر چسپاں نہیں ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ زمانہ رسالت میں محراب نہ تھے جیسے مینار بھی نہ تھے پس محراب مثل مینار کے مساجد کی علامت ہیں (۲۳ ذی الحجہ ۴۸ھ)

محراب مسجد:

محراب مسجد میں بنانا درست ہے بدعت نہیں جس امر کا ثبوت قرآن و حدیث سے پایا جاتا ہے اس کو بدعت کہنا ناجائز ہے۔ برابر خیر القرون سے اس پر مسلمانوں کا تعامل چلا آیا ہے۔
 قال اللّٰہ تعالى فنادته الملائکة وھو قائم یصلی فی المحراب (پارہ ۳) قال السدي المحراب الصلى۔ شریعت انبیاء سابقین کی شریعت ہماری ہے مگر ان امور میں جس کو قرآن و حدیث نے منسوخ کر دیا ہے بے شک اس پر عمل کرنا جائز ہے محراب کی ممانعت قرآنی آیت و احادیث الرسول سے ثابت نہیں آیت مذکورہ زکریا علیہ السلام کا فعل اللہ پاک نے ذکر کیا۔ پس اس کا جواز بین طور پر ثابت ہوا دوسری اس امر پر یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیل ہے۔
أخرج البیھقي فی السنن الکبرى من طریق سعید بن عبد الجبار بن وائل عن امه عن وائل بن حجر قال حضرت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم نھض إلٰی المسجد فدخل محراب ثم رفع یدیه بالتکبیر الحدیث وقال الشیخ ابن الھمام من ساداة الحنفیة ولا یخفی ان امتیاز الإمام مقرر مطلوب فی الشرع فی حق المکان حتی کان التقدم واجبا علیه ونبی فی المساجد المحاریب من زمن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم انتھیٰ
مولانا شمس الحق صاحب مرحوم۔ ’’عون العبود‘‘ میں لکھتے ہیں۔
قلت ما قاله القاری المحاریب من المحدثات ففیه نظر لان وجود المحراب زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم یثبت من بعض الروایات
اور اس پر حدیث مذکور بیہقی کی پیش کی ہے۔
وفی عون المعبود شرح أبی داؤد ۔ ومن ذھب إلی الکراھة فعلیه البینة ولا یسمع کلام أحد من غیر دلیل وبرھان۔ انتھیٰ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس کے مجوز ہیں۔ ’’کشاف القناع‘‘ فقہ حنبلیہ میں بھی اس کی اباحت موجود ہے، وہ یہ ہے۔
ویباح اتخاذ المحراب نصّا وقیل لا یستحب اؤما إلیه أحمد واختارہ الاجری وابن عقیل یستدل به الجاھل۔ انتھیٰ
مؤلف کشاف القناع میں بھی اباحت بلکہ استحباب ثابت کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ نص سے ثابت ہے، اصطلاح علمائے میں نص قرآنی آیات و احادیث کو کہتے ہیں یعنی قرآن و حدیث سے محراب بنانا ثابت ہے جن احادیث سے کراہت بعض لوگ ثابت کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔
وقد اخرج الطبرانی والبیھقی عن ابن عمر أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: «اتقوا  ھذہٖ المذابح یعنی المحاریب» واخرج ابن ابی شیبة فی المصنف عن موسٰی الجھنی قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال امتی بخیر ما لم یتخدوا فی مساجد ھم مذابح كمنذ انصاریٰ
 اس پر نظر ہے بچندہ وجوہ۔ اولاً ان کے راوی ذکر کے ہر ایک کی توثیق ضروری ہے جرح و علت خفیہ وغیرہ جو نقائص کے سندوں وغیرہ میں واقع ہوتے ہیں یا متن میں اس سے برأت لا بد ہے اور بیان راویوں کا ذکر ان کی توثیق جو بذمہ مدعی ہے مفقود ہے ثانیاً ممانعت مذابح کی ثابت ہوئی جو حجرے علیحدہ مسجد سے بنایا کرتے تھے نہ محراب کی ۔ ثالثاً کسی احادیث سے محراب کی ممانعت نہیں ثابت ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذابح سے منع فرمایا کمذابح النصاری اگر مشابہت نہ ہو تو جائز ہے۔ رابعاً حدیث میں مذابح ہے یعنی المحاریب یہ راوی کی تقریر ہے اپنے فہم کے مطابق نہ حدیث کے لفظ۔
جناب! محراب کے دو معنی ہیں ایک حجرہ و غرفہ دوسرا محراب المسجد حرام نہیں ہے۔

محاریب پیش گاہ ہائے مجالس و بنہ محراب المسجد وہو ایضاً 

وقوله تعالیٰ فخرج علٰی قومه من المحراب۔ قالوا من المسجد وفی فتح البیان کلما دخل علیھا ذکریا المحراب یعنی الغرفة والمحراب فی اللغة اکرم موضع فی المجلس قاله القرطبی وسبیت محرابا لانھا محل محاربة الشیطان لان المتعبد فیھا یحاربه و کذالك ھو فی المسجد وکذالك یقال لکل محال العبادة محراب۔
الحاصل محراب المسجد بنانا درست ہے۔ اس کی ممانعت کرنا شریعت میں تنگی کرنا ہے، بغیر برہان و بینہ اور جس کی ممانعت آئی ہے وہ اور چیز ہے واللہ اعلم وعلمہ اتم۔
(حررہ احمد اللہ مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی، ۴ جمادی اول ۴۲۔)
الجواب صحیح:… بے شک محراب بنانا مسجدوں میں جائز ہے اس کے عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں یہود و نصاریٰ کے طریق پر امام کے واسطے بصورت خاص محراب بنانا ناجائز ہے۔  واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
(کتبہ ابو طاہر البہاری عفا اللہ عنہ الباری المدرس الاول فی المدرسۃ دارالحدیث رحمانیہ الکائنتہ فی بلدہ دہلی)
نفس محراب بنانا تو جائز ہے مگر جیسا کہ آج کل اس میں نقش و نگار کا رواج ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے سادہ ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم۔
(کتبہ عبد الوہاب آلا روی مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی)
( والجواب صحیح والرای نجیع  واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم۔( سید ابو الحسن عفی عنہ)
محراب والی مسجدوں میں رسالت مآب اس وقت تک ثابت ہے۔ لہٰذا اس کو بدعت کہنا غلط ہے۔ سنن بیہقی کی روایت اس پر دال ہے۔ ہاں نصرانیوں کے گرجے کے مشابہ محراب بنانی منع ہے۔  مذابح کمذابح النصاری سے ممانعت وارد ہوئی اور مذابح کے معنی مقاصیر کے ہیں۔ واللہ اعلم۔
(کتبہ عبد السلام المبارکفوری ، الجواب صحیح  محمد عبد القدیر مدرس مدرسہ ریاض العلوم دہلی)
نفس محراب بنانا جائز ہے اس میں شک نہیں۔
(کتبہ عبد الرزاق مدرس اول مدرسہ ریاض العلوم دہلی)
مسجدوں میں محراب بنانا جائز ہے مگر مشرکین و اہل کتاب کے محرابوں کی مشابہت جائز نہیں یہاں تک کہ اگر غیر اہل اسلام کی عبادت گاہوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو اور وہ ان کی مسجد بنانا چاہیں تو بنا سکتے ہیں مگر اُن کے محرابوں میں تغیر وضعی یا ذاتی کرنا ضرور ہے۔ ’’نیل الاوطار‘‘ صفحہ ۳۱ ج۲
والحدیث یدل علی جواز جعل الکنائس والبیع أو مکنة الأصنام مساجد وکذلك فعل کثیر من المحاربة حین فتحو البلاد وجعلوا متعبدا تہم مکتعبدت المسلمین وغیرو امحاربھا
واللہ اعلم بالصواب۔
(کتبہ محمد اسحاق الاوری مدرس دارالحدیث رحمانیہ دہلی)
مسجدوں میں جو محراب آج کل بنے ہوئے وہ درست ہیں۔ جیسا کہ حدیث بیہقی سے ثابت ہے اس مسئلہ کی تحقیق عون المعبود میں موجود ہے جو اس کو بدعت کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں واللہ اعلم۔
(محمد یونس عفی عنہ مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب مرحوم پھاٹک حبش خان دہلی)
جواب صحیح ہے نفس محراب جو آج کل مساجد میں ہے جائز ہے جن روایتوں میں ممانعت ہے وہ اہل کتاب کی مشابہت سے منع فرمایا ہے جو اس محراب میں نہیں پائی جاتی۔ نصاریٰ کے معبد جا کر دیکھو ہر گز اس کے مشابہ نہیں۔ پھر ممانعت اس محراب سے کیسی۔ الغرض یہ محراب جائز ہے۔
(ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنہ مدرس اول)
محراب مسجد میں بنانا جائز ہے، لیکن یہود و نصاریٰ کی طرح بڑا اور خوبصورت نبقش مزین نہ ہو۔ جیسا کہ آج کل گرجوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے احادیث میں مذکور ہے اور اصحاب لغت بھی ذکر کرتے آتے ہیں مدت مدیدہ سے بغیر انکار کرنے کے۔
(عبد الرحمن مدرس مدرسہ حاجی علی جان دہلی)
مسلمانوں میں جو آج کل محراب مروج ہے وہ یہود و نصاریٰ کی طرح نہیں ہے۔ لہٰذا بدعت نہیں ہے ہاں اگر مشابہت ہو تو البتہ بدعت ہے ورنہ نہیں واللہ اعلم بالصواب
(محمد یوسف علی بیر بھومی ۱۸ جنوری ۲۴۔ فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر ۱ صفحہ ۲۹۴)

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

تبصرے