السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۃ اخلاص کو ایک مرتبہ مکمل پڑھنے سے ایک تہائی قرآن کا ثواب ملتا ہے کیا مکمل پڑھنا "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے ساتھ پڑھنا ہے۔؟ اور دوسری بات یہ کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو رات کو سوتے وقت 100 بار سورۃ اخلاص پڑھے تو اس پر بہت بڑے ثواب کی امید ہے۔ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!1۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ البراءۃ یا سورۃ التوبۃ کے علاوہ قرآن مجید فرقان حمید کی تمام تر سورتوں کی پہلی آیت ہے۔جب بھی کوئی سورۃ پڑھنے کا کہا جاتا ہے یا اسکے پڑھنے کی فضیلت بیان کی جاتی ہے تو وہ اسکی تمام تر آیات سمیت ہوتی ہے۔اور اس سورت کی کوئی بھی ایک آیت چھوڑنے والا اس اجر وثواب کا مستحق نہیں بنتا ہے ۔
مزید تفصیلات کے لیے یہ درس سماعت فرمائیں :
دين خالص || بسم اللہ الرحمن الرحیم
2۔ یہ روایت ضعیف ہے ، جامع ترمذی ابواب فضائل القرآن باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص ح ۲۸۹۸ میں امام ترمذی نے اسے کچھ یوں نقل فرمایا ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو سَهْلٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَرَأَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَتَيْ مَرَّةٍ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ مُحِيَ عَنْهُ ذُنُوبُ خَمْسِينَ سَنَةً إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ عَلَى فِرَاشِهِ فَنَامَ عَلَى يَمِينِهِ ثُمَّ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ مِائَةَ مَرَّةٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَقُولُ لَهُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا عَبْدِيَ ادْخُلْ عَلَى يَمِينِكَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ ثَابِتٍ
اسکی سند میں ابو سہل حاتم بن میمون الکلابی البصری صاحب السقط ، ضعیف ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بارہ میں فرماتے ہیں
’’ روى منکرا‘‘منکر روایات بیان کرتا تھا۔
ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں
’’ یروی احادیث لایرویہا غیرہ‘‘ایسی روایات بیان کرتا تھا کہ جنہیں اور کوئی بیان ہی نہیں کرتا۔
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں
’’ منكر الحديث على قلته،يروي عن ثابت ما لا يشبه حديثه،لا يجوز الاحتجاج به‘‘قلیل الروایۃ ہونے کے باوجود منکر الحدیث ہے ،ثابت سے ایسی روایات بیان کرتا تھا جو اسکی روایات سے میل ہی نہیں کھاتیں ، کسی حال میں بھی اسے حجت ماننا جائز نہیں ہے ۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اسے ضعیف کہا ہے اور ذہبی رحمہ اللہ نے کاشف میں کہا ہے کہ
’’ لہ مناکیر‘‘اسکے پاس منکر روایات تھیں۔
صحیح دلائل سے شریعت میں اس طرح کی فضیلت خاص عمل پہ وارد نہیں ہوئی۔واللہ اعلم
فتاویٰ علمائے حدیثجلد 2 کتاب الصلوۃ |