سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) قبل از وقت اذان

  • 24297
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 604

سوال

(287) قبل از وقت اذان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’دائمی اوقات الصلوٰۃ‘‘ کے مطابق ۱۳/۶ کو غروب شفق ۸ بج کر ۴۶ منٹ پر تھا۔ اس لیے عشاء کی اذان مذکورہ وقت پر یا اس کے بعد ممکن تھی، لیکن مسجد کمیٹی کے ذمہ دار حضرات میں سے ایک صاحب ۴۵/۸ پر اذان اور ۹ بجے نماز ادا کرنے پر بضد ہیں کیا قبل از وقت اذان دینا صحیح ہے ؟ اگر نہیں تو کیا اذان واجب الاعادہ ہے؟ اگر ۴۵۔۸ پر اذان دینا صحیح نہیں تو اس صورت میں نماز کی حیثیت کیا بنی؟

اگر مذکورہ وقت پر اذان دینے سے نماز متاثر ہوتی ہے تو اس کوتاہی پر ذمہ دار آدمی اور امام صاحب پر شرعاً کیا بوجھ آتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس زمانہ میں نمازوں کے اوقات مقرر ہوئے تھے اس وقت انسانوں کے پاس اتنے ذرائع تسہیلِ معرفتِ اوقات (آسانی سے اوقات معلوم کرنے کے وسائل) موجود نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ان کا تعین ظاہری معلومات پر مبنی تھا، جس میں کمی و بیشی کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد نبوی اورمسجد قباء کے اوقاتِ نماز میں بھی تفاوت تھا(فرق) جو کسی کے ہاں قابلِ نکیر نہ تھا۔

ان حالات کے پیشِ نظر اور ’اَلدِّینُ یُسرٌ ‘ کا تقاضا ہے، کہ مذکورہ وقت پر اذان اور پڑھی ہوئی نماز دونوں درست ہوں۔ لیکن جان بوجھ کر عمل ہذا پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ موجودہ رَوَش کو بدل کر ٹائم پیچھے کردینا چاہیے۔ ویسے بھی عشاء کی نماز کو مؤخر کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے۔ نیز ائمہ کے فرائض میں سے ہے کہ مسائل میںمقتدیوں کی صحیح رہنمائی کرکے ان کو خلفشار سے بچائیں، تاکہ قرآنی وعید﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذهَبَ رِیحُکُم﴾کی زَد سے محفوظ رہ سکیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:284

محدث فتویٰ

تبصرے