سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(265) عثمانی اذان کی شرعی حیثیت

  • 24275
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-16
  • مشاہدات : 1651

سوال

(265) عثمانی اذان کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عثمانی اذان کی شرعی حیثیت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں نے جمعہ کی پہلی اذان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ اذان خلیفۂ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے زمانے میںشروع ہوئی تھی۔ پھر اس کے جواز پر اجماع ہو گیا۔ میرا یہ جواب دیگر سوالوں کے جواب کے ساتھ ہفت روزہ’’الإعتصام‘‘ لاہور کی اشاعت ۶۔اکتوبر۱۹۸۹ء میں شائع ہوا تھا جس پر’’الاعتصام‘‘ کے اسی شمارے میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے تعاقب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مطلقاً جواز محلِّ نظر ہے۔ چنانچہ انھوں نے بعد ازاں ’’الاعتصام‘‘ کے مسلسل چار شماروں میں مولانا عبید اﷲ عفیف صاحب کا ایک تفصیلی مضمون شائع کیا جو چار قسطوں میں مکمل ہوا۔

اسی بناء پر میں چند نکتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ لیکن بطورِ تمہید یہ عرض کردوں کہ جمعہ کی پہلی اذان، جس پر عمل دورِ صحابہ سے آج تک شائع اور ذائع ہے ، ان مسائل سے نہیں جنھیں بدعت قرار دے کر ختم کرنے کی ضرورت ہو، بلکہ اس کے بالمقابل جو قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میںجگہ جگہ جمعوں کے تعدّد کو بنیاد بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں پہلی اذان کی ضرورت ہی نہیں رہتی، وہ محلِّ نظر ہے۔ کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں جمعہ کیلیے مسجدوں کی یہ بھرمار نہ تھی بلکہ جمعہ مسجد نبوی میں ہی ہوتا تھا۔ آج اس سنت کے إحیاء کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ لاؤڈ اسپیکروں کی آوازوں کا باہمی ٹکراؤ اور شور کم ہو کر مسلمانوں کی اجتماعیت مستحکم ہو۔

اس ابتدائی بات کے بعد اصل مسئلے کی وضاحت کے لیے ہم چند نکات پیش کرتے ہیں:

۱۔         کیا جمعہ کی پہلی اذان شرعی ضرورت تھی یا انتظامی تدبیر؟

۲۔        کیا مقامِ ’’زورائ‘‘ پر اس اذان کا ہونا غیر شرعی ہونے کی بناء پر تھا؟

۳۔        یہ اذان کیوں عام ہوئی؟ نیز کیا اس کی ضرورت ختم ہو چکی ہے؟

۴۔        خلفائے راشدین کی سنت کا سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے کیا تعلق ہے؟

۵۔        بعض ائمہ کااس کو بدعت کہنا کیا مفہوم رکھتا ہے؟

۱۔         جمعہ کی پہلی اذان ختم کرنے والوں کی بنیادی غلطی یہ ہے، کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی جمعہ کے لیے پہلی اذان کے اضافے کی اصل وجہ کا تعین ٹھیک طور سے نہیں کرسکے۔ اسی لیے وہ اسے کبھی انتظامی تدبیر قرار دیتے ہیں، اور کبھی مقامی اور ہنگامی ضرورت۔ حالانکہ یہ کوئی ہنگامی یا مقامی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ شرع میں اس کی مثال پہلے بھی موجود تھی۔ وہی اس کے مُطلق جواز کی دلیل ہے۔ مثلاً رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صبح کی نماز کے لیے نیند سے بیداری کے بعد تیاری کی ضرورت محسوس کی تو صبح کی اصل اذان سے قبل ایک اذان کا اضافہ کردیا، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ  دیا کرتے تھے۔( اس بارے میں میرا تفصیلی مضمون’’ الاعتصام‘‘ کے ۲۹ستمبر ۸۹ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے اور اس کا خلاصہ ۶ اکتوبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں ’’ عثمانی أذان‘‘ کے ساتھ دیگر اسئلہ کے جواب میں دوبارہ پیش کردیا تھا۔) اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے جب لوگوں کی آبادی بڑھ جانے کی بناء پر یہ ضرورت محسوس کی کہ جمعہ کی اصل اذان سے قبل تیاری کے لیے ایک مزید اذان کی ضرورت ہے تو انھوں نے پہلی اذان کا اضافہ کردیا۔ جس سے بڑا مقصد یہی تھا کہ نمازی خطبہ شروع ہونے سے قبل جمعہ کی مبارک گھڑیوں کا ثواب حاصل کر سکیں، جن کی صراحت صحیح احادیث میں موجود ہے۔

بعض علماء نے اس کی شرعی اصل یہ بھی قرار دی ہے کہ حضرت عثمان نے اس اذان کو دیگر نمازوں کی اذان پر قیاس کیا تھا۔ جیسے تمام نمازوں کی اذان نماز کھڑی ہونے سے کچھ دیر پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح جمعہ کا خطبہ، جو نماز کے قائم مقام ہے ، اس سے کچھ قبل اذان مناسب سمجھی۔ لہٰذا انھوں نے عام نمازوں کی اذان پر قیاس کرکے اس کے شرعی ہونے کی دلیل پیش کی ہے۔ بہر صورت وجہ کچھ بھی ہو، اس کے لیے شرعی دلیل موجود ہے۔ اس لیے یہ اذان مشروع ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری:۳۹۴/۲۔

۲۔        جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ عثمانی اذان شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی شروع کی گئی تھی۔ چنانچہ اس اذان کا مقام ’’زورائ‘‘ پر مسجد سے دُور ہونا کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا۔ اذان کا اصل مقصد اطلاع دینا ہوتا ہے جہاں سے اطلاع کا اصل مقصد پورا ہوسکے  وہی مقام اس کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ خود مولانا عبید اﷲ عفیف صاحب اپنے مضمون کی تیسری قسط ’’ تیسیرالعلّام‘‘ کے حوالے سے ایسی توجیہ پیش کر چکے ہیں، جو حدیث أبوداؤد سے بھی ثابت ہے، کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  صبح کی اذان مسجد سے باہر ’’بنی نجار‘‘ کی ایک عورت کے مکان پر دیا کرتے تھے۔ جو نسبتاً بلند تھا۔ چونکہ ’’زورائ‘‘ مدینہ کی اس وقت کی مارکیٹ میں تھا۔ اس لیے کاروبار میں مصروف لوگوں کو تیاری کے لیے اطلاع دینے کی ضرورت بھی، وہاں زیادہ تھی جس سے بازار کے قریب آبادی کو بھی اطلاع مل جاتی تھی۔ لہٰذا اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں کہ مقامِ ’’زورائ‘‘ مسجدِ نبوی سے کتنے فاصلے پر تھا؟ مولانا موصوف نے مدینہ منورہ کے مشہور قاضی شیخ  عَطِیَّہ محمد سالم کے حوالے سے اس کا مقام متعین کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس کا اصل مسئلے سے خاص تعلق نہیں۔ میں نے آج سے قریباً بیس سال قبل یہ جگہ دیکھی تھی جو ’’باب المصری‘‘ کے دائیں جانب بازار سے بجانب مغرب تھی۔ اس وقت وہاں ’’مسجدِ فاطمہ‘‘ موجود تھی، جس سے چند گز دُور مالک بن سنان صحابی کا مدفن بھی تھا۔ شیخ عطیہ مسجدِ فاطمہ رضی اللہ عنہ  نزد قبر مالک بن سنان کو مقامِ ’’زورائ‘‘ بتاتے ہیں۔ آج کل یہ دونوں جگہیں مسجد نبوی کی توسیع میں شامل ہو چکی ہیں۔

شیخ موصوف میرے مدینہ منورہ میں حصولِ تعلیم کے دوران محترم اساتذہ میں سے تھے۔ وہ خود بھی عثمانی اذان کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ اس کا ذکر انھوں نے اپنے استاد شیخ محمد امین شنقیطی (جن کے تلمذ کا مجھے بھی شرف حاصل ہے) کی تفسیر ’’ أضواء البیان‘‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اس کی آٹھویں جلد صفحہ:۲۶۶، میں صراحتاً کیا ہے۔ میں اپنے فتوے میں اپنے استاد مکرم حافظ عبد اﷲ محدث روپڑی رحمہ اللہ  کے حوالے سے بھی تائید پیش کر چکا ہوں، کہ اذان سے مقصد بذریعہ توحیدی کلمات اعلان ہی ہے۔ اس میں بازار یا دوسری جگہ کی خصوصیت کا کوئی دخل نہیں، شانِ نزول کی طرح سبب حدیث کے اصولوں میں یہ بات مُسَلَّمہ ہے کہ خاص جگہ یا اشخاص میں شریعت محدود نہیں ہوا کرتی۔ ( اَلعِبرَةُ بِعُمُومِ اللَّفظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ)

۳۔        چونکہ عثمانی اذان کا سبب شرعی تھا۔ مسلمانوں کا پھیلاؤ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے زمانہ اور اس کے بعد برابر زیادہ ہی ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اس اذان پر عمل بھی برابر جاری رہا۔اس کو امام زہری رحمہ اللہ  نے’’فَثَبَتَ الأَمرُ عَلٰی ذٰلِك ‘‘ سے روایت کیا ہے، جس کا مفہوم واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے اس عمل کا سلسلہ بعد کے زمانوں میں بھی چلتا رہا۔

امام ابن ابی ذئب نے ، جن کو وَرَع و تقویٰ کے اعتبار سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے امام مالک رحمہ اللہ  پر مقدم سمجھا ہے، اس اذان کے بارے میں’’فَثَبَتَ عَلٰی ذٰلِكَ حَتّٰی السَّاعَة‘‘ کے الفاظ بھی ذکر کیے ہیں۔ یعنی ’’ان کے زمانے تک یہ عمل قائم رہا۔‘‘ ان کبار ائمہ کی طرف سے الفاظِ حدیث کے بعد والے تبصرے کا مفہوم یہ بتانا کہ یہ اذان صرف امام أبوداؤد وغیرہ کے زمانہ میں عام ہوئی۔ کبار ائمہ کو فہمِ حدیث میں تلقین کرنے کے مترادف ہے۔ فتح الباری:۳۹۴/۲

ادارہ ’’الاعتصام‘‘ مولانا عبید اﷲ عفیف صاحب کی تائید سے گھڑیوں، موجودہ لاؤڈ اسپیکروں کی موجودگی اور مساجد کی کثرت کی وجہ سے جو اس ضرورت کو اب اہمیت نہیں دے رہا، تو یہ بنیاد بھی درست نہیں۔ کیونکہ ضرورت صرف نماز کے وقت کی اطلاع دینے کی نہیں ہوتی بلکہ نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے وقت سے پہلے تیاری کے لیے خبردار کرنے کی بھی ہے۔ فتح الباری:۳۹۴/۲

ہم اُوپر صبح کی پہلی اذان کے بارے میں توجیہ پیش کر چکے ہیں، جو اسی طرح نماز کے وقت سے پہلے ہوتی تھی۔ وقت سے پہلے نماز یا خطبہ کی تیاری وقتی اور ہنگامی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ضرورت ہے۔ اسی لیے اس عمل پر اعتراض صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے زمانہ میں ہوا اور نہ بعد میں اس کی مذمت کسی نے کبھی اس وجہ سے کی ۔ مولانا عبیداﷲ عفیف بھی دلائل تو اس کے عدمِ جواز کے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دبے لفظوں میں ضرورت کی بناء پر جوازِ عمل بھی تسلیم کرتے ہیں۔

۴۔        ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ نے اپنے تعاقب کی چوتھی قسط میں ’’خدشات‘‘ کے زیرِ عنوان خلفائے راشدین کی سنت کی بحث کا جس انداز سے سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے معارض ہونا ذکر کیا ہے۔ نامناسب ہے۔ ابتداء ہی سے خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کو سنت سے ٹکرانا اور اسُے غلط بتانا درست طریقِ کار نہیں۔ بالخصوص جب کہ دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے اس پر نکیر بھی وارد نہیں ہوئی ہو۔ اگر خلفائے راشدین کا طرزِ عمل سنت سے انحراف کا ہوتا تو حدیث میں اس پر سنت کا اطلاق بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے لیے نہ صرف سنت کا لفظ بولا بلکہ اسے مضبوطی سے اختیار کرنے کی تلقین بھی فرمائی۔

’عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ‘سنن ابن ماجه،بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِینَ المَهدِیِّینَ،رقم:۴۲

اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ خلفائے راشدین کا طریقہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کے مختلف پہلوؤں ہی کی وضاحت ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں کے بظاہر مختلف نظر آنے پر پہلی صورت دونوں کو جمع کرنے کی اختیار کرنی چاہیے۔ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی اذان میں بوجوہ موجود ہے۔ ان کے طرزِ عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے طریقے کے ساتھ اسی لیے جمع کیا کہ وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے نائب ہونے کے منصب سے دین اور اس کے مختلف پہلوؤں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں دین میں تبدیلیاں یا بگاڑ کا تصور اتنا آسان نہیں۔ خصوصاً جمعہ کی پہلی اذان جیسا مسئلہ جس پر نہ صرف صحابہ نے اعتراض نہیں کیا بلکہ رواج اس پر پختہ ہوا۔

البتہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے خلفائے راشدین کی کسی رائے کے اتفاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو بلاشبہ شریعت سنَّت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  ہی ہو گی ۔ کیونکہ خلفائے راشدین کو شریعت میں اضافہ کی اجازت نہیں۔ لیکن جس بات کی دلیل شریعت میں موجود ہو وہ شریعت میں تبدیلی یا اضافہ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اذانِ عثمانی کے بارے میں اُوپر واضح ہو چکا۔ ایسی چیزوں کے بارے میں ہی سنتِ خلفائے راشدین کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے۔ ورنہ اگر ہر بات جو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میںموجود ہو وہی سنت ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرنے کا حکم ہی کیوں فرمایا؟

ظاہر ہے کہ وہ بظاہر ایک الگ فعل ہو گا۔ لیکن دلیل شرعی کے تحت آجانے کی وجہ سے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا تتمَّہ بن جاتا ہے۔

۵۔        اذانِ عثمانی کے بارے میں بعض ائمہ کے لفظ’’بِدعَۃٌ‘‘ یا ’’مُحدَثٌ‘‘ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شاید ان کے نزدیک یہ اذان اصطلاحی بدعت کی مذموم شکل ہے۔ حالانکہ ائمہ ایسی نئی صورتوں کو بھی لفظ ’’مُحدَثٌ‘‘ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جن کی شکل نئی ہو۔ خواہ اس کی دلیل شریعت میںموجود ہو۔

چنانچہ عبد اﷲبن عمر رضی اللہ عنہما  کا عثمانی اذان کو بدعت کہنا اس معنی میں ہے۔ جس معنی میں ان کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے باجماعت تراویح کو’’نِعمَتِ البِدعَۃُ ھٰذِہ ‘‘ کہا تھا۔

یہ بدعت کا لغوی معنی میں استعمال ہے۔ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے تراویح کو باجماعت صورت میں رواج دیا اور اسے اچھی بدعت کہا اسی طرح ان کے بیٹے عبد اﷲ نے اذانِ عثمانی کے رواج کو بدعت سے تعبیر کیا۔ حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما  دونوں خلیفہ راشد ہیں اور اسی حیثیت میں ان کا طرزِ عمل شرعی ہونے کی بناء پر قابلِ اطاعت ہے۔

باقی رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا کوفے میں طرزِ عمل کو کہ انھوں نے اذانِ عثمانی کو اختیار نہیں کیا۔ تویہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کوئی بھی حضرت عثمان کی اذان کے وجوب کا قائل نہیں۔ لیکن اس سے عثمانی اذان کا غیر مشروع ہونا لازم نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے اپنے دَورِ خلافت میں کوفہ کے علاوہ دیگر علاقوں میں عثمانی اذان کو باقی رکھ کر خود اس پر عمل صرف کوفہ میں اس لیے چھوڑ دیا ہو کہ کوفے والوں کا رجحان بنو اُمیہ کی مخالفت کا تھا۔ ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  بنوامیہ سے تھے اور انہی کی ہمدردی کے دعویٰ سے شام وغیرہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  کوفہ والوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔ ایسی مصلحتیں مباحات میں اختیار کرنا کسی کے نزدیک معیوب نہیں۔ بہرصورت حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی وسیع مملکت میں صرف کوفہ میں ایک اذان پر اکتفا عثمانی اذان کی غیر مشروعیت کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بالخصوص جب حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے اس اذان کی زبانی مخالفت نہ حضرت عثمان کے دَور میں ثابت ہے اور نہ اس کے بعد۔ یہی توجیہ اگر سامنے رہے تو بعض سلف مثلاً : حسن بصری، زہری اور امام شافعی رحمہ اللہ  وغیرہ کی آراء کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ تینوں بھی اہلِ بیت کے ہمدردوں میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی عثمانی اذان کو غیر شرعی نہیں کہا۔

ہماری مذکورہ بالا گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ عثمانی اذان کے رواج کے خلاف تگ و دَو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک جائز امر جس کے جواز پر اجماعِ امت موجود ہو۔ احیائِ سنت کی سرگرمیوں کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اگرچہ بعض مخصوص علاقوں میں جب بعض لوگوں نے اپنی بدعات کو سہارا دینے کے لیے اذانِ عثمانی سے استدلال کی کوشش کی، تو بعض اہلِ علم نے اس مصلحت سے اذانِ عثمانی کو چھوڑ کر جمعہ کی ایک اذان پر اکتفا کرنے کو ترجیح بھی دی۔ برّصغیر پاک و ہند کے بعض علماء اور مصر و شام کے شیخ احمد محمد شاکر اور شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ  وغیرہ کی توضیحات سے بھی یہی مقصود ہے۔ (واﷲ اعلم بالصواب)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:266

محدث فتویٰ

تبصرے