السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۃ جمعہ میں آتا ہے کہ ’’جب تمہیں نمازِ جمعہ کے لئے بلایا جائے تو دوڑ کر آؤ اور خریدوفروخت چھوڑ دو۔‘‘ تو آیا کیا اس آیت کی روشنی میں پہلی اذان خطبہ شروع ہونے سے ۱۵،۲۰ منٹ پہلے دی جاسکتی ہے (یعنی جمعہ کے لئے دو اذانیں ) ایک خطیب صاحب فرماتے ہیں کہ صرف ایک اذان ہی دی جائے، لیکن اگر ایک اذان ہی دی جائے تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے، کیونکہ اس آیت سے تو یہی واضح ہورہا ہے کہ جب حدیث میں حکم ہے کہ امام کے منبر پر بیٹھنے سے پہلے آنے والے کے جمعے کا ثواب ملتا ہے۔ (محمد خورشید شاہ، راولپنڈی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورۃ جمعہ کی آیت ِکریمہ میں منبری اذان کا بیان ہے۔ پہلی اذان کا نہیں وہ تو خلیفہ ثالث عثمانؓ کے دور میں شروع ہوئی اور یہ ضروری بھی نہیں ۔ صرف جواز ہے قرآنی آیت میں وجوب کے وقت کا ذکر ہے۔ اُصولِ فقہ میں قاعدہ مشہور ہے:مالایتم الواجب إلا به فهو واجب جس کامفہوم یہ ہے کہ پہلے اپنا کاروبار چھوڑ دینا چاہئے تاکہ آدمی منبری اذان کے وقت مسجد میں پہنچ سکے اور حدیث میں جن گھڑیوں کا بیان ہے وہ صرف فضیلت کی گھڑیاں ہیں ، وجوب کی نہیں ۔ اس سے معلوم ہواکہ قرآنی آیت میں پہلی اذان کی طرف اشارہ تک نہیں اور نہ آج تک کسی مفسر نے اس سے یہ بات سمجھی ہے جو آپ کے ذہن میں ہے۔ اصلاً اذان ایک ہی ہے جس طرح کہ خطیب صاحب نے فرمایا ہے۔اضافی اذان کے بارہ میں زیادہ سے زیادہ جواز ہے۔ مزید تفصیل کے لئے سابقہ فتاویٰ کی طرف رجوع کریں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب