سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) سحری کی اذان کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت ہے؟

  • 24266
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2105

سوال

(256) سحری کی اذان کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک کے علاوہ بعض لوگ گیارہ مہینوں میں سحری کی اذان دیتے ہیں۔ کوئی اسے نفلوں کی اذان بھی کہتا ہے۔ اُس اذان میں تثویب ’’الصَّلٰوةُ خَیرٌ مِنَ النَّوم‘‘ بھی نہیں کہتے۔ کیا اس اذان کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صبح کی دو اذانیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں دونوں اذانوں پر بایں الفاظ ابواب منعقد کیے ہیں۔’’بَاب الأَذان بعدَ الفجر‘‘  طلوعِ فجر کے بعد اذان کہنے کا بیان اور ’’بَابُ الأَذَانِ قَبلَ الفَجرِ‘‘ یعنی طلوعِ فجر سے قبل اذان کہنے کا بیان۔

پھر مصنف نے ہر تبویب کے تحت تین تین احادیث بیان کی ہیں۔ جن کے ایراد (ذکر کرنے) سے مدعی کا اثبات مقصود ہے۔

نیز نسائی اور طحاوی; کی روایات میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے ان اذانوں کادرمیانی فاصلہ اس طرح منقول ہے: ’ وَ لَم یَکُن بَینَهُمَا اِلَّا اَن یَّنزِلَ هٰذَا وَ یَصعَدَ هٰذَا یعنی ان دونوںاذانوں کے درمیان وقفہ صرف اتنا سا ہوتا کہ ایک اذان دے کر اُترتا اور دوسرا اذان کے لیے چڑھ جاتا۔

اگرچہ اس روایت میں مبالغہ ہے، لیکن اس مبالغہ کا مقصد درمیانی وقفہ کا تھوڑا ہونا ہے۔ طحاوی کی دوسری روایت میں ہے ۔ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ  سے کہا: ’ اِنَّکَ تُؤَذِّنُ اِذَا کَانَ الفَجرُ سَاطِعًا ‘ یعنی تو اس وقت اذان کہتا ہے جب کہ فجر چڑھنے والی ہوتی ہے۔ یعنی فجرِ کاذب کے وقت میں۔

فجرِکاذب اور صادق میں فرق یہ ہے، کہ صادق وہ ہے جو چوڑائی میں چڑھے اور دائیں بائیں کناروں میں پھیل جائے، بخلاف کاذب کے، جس کا نام عرب لوگ ’’ذَنَبُ السرحان‘‘ (بھیڑیے کی دم) رکھتے ہیں۔ یہ آسمان کی بالائی میں عمودی شکل میں ظاہر ہو کر نیچے اترتی ہے۔ پس پہلی اذان کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان میں حسبِ ذیل ہے۔فرمایا:

’فَاِنَّهٗ یُؤَذِّنُ اَو یُنَادِی بِلَیلٍ لِیُرجِعَ قَائِمَکُم وَلِیُنَبِّهَ نَائِمَکُم‘صحیح بخاری، باب الأذان قبل الفجر،رقم:۶۲۱

’’بلال رضی اللہ عنہ  رات کے وقت اذان دیتا ہے تاکہ قیام کرنے والے(نماز تہجد پڑھنے والے) کو لوٹائے اور سوئے ہوئے کو بیدار کردے۔‘‘

علامہ صنعانی رحمہ اللہ  ’’سبل السلام‘‘ میں فرماتے ہیں:

’ وَ فِیهِ شَرعِیَّةُ الأَذَانِ قَبلَ الفَجرِ ، لَا لِمَا شُرِعَ الأَذَانُ، فَإِنَّ الأَذَانَ، کَمَا سَلَفَ لِلاِعلَامِ لِدُخُولِ الوَقتِ ، وَ لِدُعَاءِ السَّامِعِینَ بِحُضُورِ الصَّلٰوةِ۔ وَهٰذَا الأَذَانُ الَّذِی قَبلَ الفَجرِ۔ قَد أَخبَرَ ﷺ بِوَجهِ شَرعِیَّتِهٖ بِقَولِهٖ: لِیُرجِعَ قَائِمَکُم ، وَ یُوقِظَ نَائِمَکُم۔ (رواه الجماعة اِلّا الترمذی) وَ القَائِمُ :  الَّذِی یُصَلِّی صَلَاةَ اللَّیلِ ۔ وَ رُجُوعُهٗ : عَودُهٗ إِلٰی نَومِهٖ ، أَو قُعُودُهٗ عَن صَلٰوتِهٖ إِذَا سَمِعَ الأَذَانَ۔ فَلَیسَ لِلاِعلَامِ بِدُخُولِ الوَقتِ ، وَ لَا بِحُضُورِ الصَّلَاةِ  ‘سبل السلام: ۱۲۴/۱

یعنی ’’حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما  میں فجر سے پہلے اذان کہنے کا ثبوت ہے، مگر یہ اذان اس لیے نہیں جو اس کی اصل غرض ہے۔ کیونکہ اصل مقصد اذان سے نماز کے وقت کا اعلان اور سامعین کو نماز میںشرکت کی دعوت دینا ہے اور فجر سے قبل جو اذان دی جاتی ہے، اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اطلاع دی ہے، کہ یہ سوئے ہوئے کو جگانے، اور قیام کرنے والے کو لوٹانے کی خاطر ہے۔ اس کو ترمذی رحمہ اللہ  کے سوا باقی جماعت نے روایت کیا ہے۔قائم سے مراد: جو رات کو نماز پڑھتا ہے۔ اس کو لوٹانے سے مراد یہ ہے، کہ وہ سو جائے یا نماز سے فارغ ہو کر بیٹھ جائے، جب کہ اذان سنے۔ پس یہ اذان نہ وقتِ نماز کی اطلاع کے لیے ہے اور نہ نماز میں حاضری کی خاطر ہے۔‘‘

نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’ اگر کہا جائے کہ شرعی اذان کی تعریف جو پہلے گزر چکی ہے، وہ یہ ہے کہ مخصوص الفاظ سے نماز کے ٹائم کی اطلاع کرنا، اور قبل از وقت اذان دینے میںتو وقت کی اطلاع نہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وقت کی اطلاع دینا ’’اعمّ ‘‘ہے۔ وقت ہو چکا ہو یا وقت ہونے کے قریب ہو۔

صبح کی نماز کو باقی نمازوں کے درمیان سے اس وقت اذان دینے کے ساتھ اس لیے مخصوص کیا گیا کہ، اوّل وقت نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور صبح غالباً نیند کے بعد واقع ہوتی ہے۔ اس واسطے ایسے آدمی کا تقرر مناسب ہوا، کہ وہ لوگوں کو وقت کے داخل ہونے سے پہلے آگاہ کرے، تاکہ وہ تیار ہو جائیں، اور اوّل وقت کی فضیلت کو پالیں۔‘‘ فتح الباری:۱۰۵/۲

ائمۂ شارحینِ حدیث کی وضاحتوں سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ پہلی اذان بھی من وجہ نماز فجر سے متعلق ہے۔ جیسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے کلام میں مُشَارٌ إِلَیہِ ہے ۔اسی بناء پر ائمۂ مشاہیر، مالک، شافعی، احمد، ابویوسف(﷭) فرماتے ہیں :

’’اذان ہٰذا دوسری اذان سے کافی ہو سکتی ہے۔ دوبارہ اذان کی ضرورت نہیں۔‘‘

صاحب ’’المرعاۃ‘‘ نے بھی اسی مسلک کو ترجیح دی ہے۔

مذکورہ مباحث سے بخوبی نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے کہ صبح کی پہلی اذان کا تعلق نہ تو نفلی نماز پڑھانے سے ہے اور نہ سحری کھانے پینے سے۔ چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ۔ اگرچہ اذانِ اوّل کا فعل سحری کھانے کے مباح اوقات میں ہے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کی اذان سے چونکہ اشتباہ (شبہ) پڑ سکتا تھا کہ شاید اب کھانا پینا حرام ہو گیا، اس اشکال کو رفع کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’ اِنَّ بِلَالًا یُؤذِّنُ بِلَیلٍ ، فَکُلُوا وَاشرَبُوا ، حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابنُ اُمِّ مَکتُومٍ‘صحیح البخاری، باب الأذان قبل الفجر،رقم:۶۲۰

ورنہ سحری کھانا تو تمام اوقات میں مباح ہے۔ اذان سے پہلے ہو یا بعد اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کی یہ اذان سال بھر جاری رہتی تھی۔

’’فتح الباری‘‘میں ہے:’ فِیہِ إِشعَارٌ بِاَنَّ ذَلِکَ کَانَ مِن عَادَتِہِ المُستَمِرَّۃِ ‘ یعنی حدیث کے الفاظ ’إِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّن بِلَیلٍ‘ میں دلیل ہے کہ رات کو اذان دینا بلال رضی اللہ عنہ  کی دائمی عادت تھی۔ نیز حدیث میںاس کی عِلَّت ’لِیُوقِظَ نَائِمَکُم وَیُرجِعَ قَائِمَکُم‘(صحیح مسلم:بَابُ بَیَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِی الصَّومِ یَحصُلُ بِطُلُوعِ الفَجرِ …الخ،رقم: ۱۰۹۳) بیان ہوئی ہے، جس کا تعلق پورے سال سے ہے۔

بہر صورت جب بات واضح ہو گئی کہ پہلی اذان سے مقصود تہجد کا وقت ختم ہونے کی اطلاع اور سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا ہے، تو اس کا تقاضا ہے کہ جہاں دو اذانیں ہوں وہاں ’الصَّلوٰةُ خَیرٌ مِّنَ النَّوم’پہلی اذان میں کہا جائے۔ اس سلسلے میں چند ایک احادیث بطورِ حوالہ ملاحظہ فرمائیں!نسائی میں ہے:

’ عَن أَبِی مَحذُورَةَ قَالَ … قَالَ … حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ۔ الصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ ۔ الصلوة خیر من النوم فی الأولٰی من الصبح ‘سنن النسائی،الأَذَانُ فِی السَّفَرِ، رقم:۶۳۳

حاشیہ نسائی میں ہے:

’ فِی الأولیٰ من الصبح: أی فی المُنَادَاةِ الأَُولٰی۔ و فی نسخةٍ : فی الأوَّل: أی فی النداء الأوّل ۔ والمراد : الأذان دون الإقامة  ‘ واللّٰه تعالٰی أعلم۔

یعنی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اذان سکھائی جس طرح کہ تم آج کل دیتے ہو، پھر اذان کے کلمات کہتے ہوئے کہا: ’’الصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِّنَ النَّوم ‘‘صبح کی پہلی اذان میں ہے۔

نیز نسائی میں ہے:

’ عَن أَبِی مَحذُورَةَ ، قَالَ : کُنتُ اُؤَذِّنُ لِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺ، وَ کُنتُ اَقُولُ فِی أَذَانِ الفَجرِ الأَوَّلِ : حَیَّ عَلَی الفَلَاح۔ اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ …‘ سنن النسائی،التَّثوِیبُ فِی أَذَانِ الفَجرِ، رقم:۶۴۷

یعنی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے اذان کہتے تھے، اور پہلی اذانِ فجر میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہا کرتے تھے۔

’’تلخیص الحبیر‘‘ میں ہے: وَصَحَّحَهُ ابنُ حَزمٍ یعنی ابو جعفر والی حدیث کو ابن حزم رحمہ اللہ  نے صحیح کہا ہے۔’’دارقطنی‘‘ میں ہے:’الصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ فِی الأُولٰی مِنَ الصُّبحِ‘سنن الدارقطنی، بَابٌ فِی ذِکرِ أَذَانِ أَبِی مَحذُورَةَ وَاختِلَافِ الرِّوَایَاتِ فِیهِ ،رقم:۹۰۳

 نیز ’’دارقطنی‘‘ میں ہے:

’ فَإِذَا اَذَّنتَ بِالأُولٰی مِنَ الصُّبحِ فَقُل اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ مَرَّتَینِ ‘سنن الدارقطنی،بَابٌ فِی ذِکرِ أَذَانِ أَبِی مَحذُورَةَ وَاختِلَافِ الرِّوَایَاتِ فِیهِ ،رقم:۹۴۰

سنن أبوداؤد میں ہے:

’ عَن أَبِی مَحذُورَةَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ نَحوهٰذَا الخَبر۔ وَ فِیهِ ’ اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ۔  اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ  فِی الأَولٰی مِنَ الصُّبحِ ‘سنن أبی داؤد،بَابُ کَیفَ الأَذَانُ، رقم:۵۰۱

’’سنن کبُریٰ ‘‘ بیہقی میں ہے:

’ إِنَّهٗ کَانَ یُثَوِّبُ فِی الأَذَانِ الأَوَّلِ مِنَ الصُّبحِ بِأَمرِهٖ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ‘

یعنی ابومحذورہ رضی اللہ عنہ  صبح کی پہلی اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے تثویب کہتے تھے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ ’’الصلوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ‘‘ کا اضافہ پہلی اذان میں ہونا چاہیے۔ بشرطیکہ دونوں کے درمیان زیادہ وقفہ نہ ہو۔ بصورتِ دیگر یہ اذان خلاف ِمنہج نبوی ہو گی ۔اس کا اندازہ قریباً آدھ گھنٹہ تک کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں ’’مسجد الحرام‘‘ میں یہی انداز معمول بہا(اسی پر عمل ہو رہا) ہے۔

واضح ہو! اس ساری بحث کا تعلق دو اذانوں سے ہے۔ اگر کسی جگہ صبح کی صرف ایک اذان ہو تو وہاں بلاتردّد ’اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ‘  کا اضافہ اس اذان میں ہو گا۔

اخیر میں یہ بھی یاد رہے کہ دوسری اذان اور اقامت کے مابین وقفہ صرف ہلکی سی دو رکعتوں کا ہونا چاہیے۔ طویل انتظار میں بیٹھے رہنا خلافِ سنت ہے۔  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب وعِلمُہٗ أتمّ

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:236

محدث فتویٰ

تبصرے