سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) اذانِ تہجد اور صفیں سیدھی کرنا

  • 24264
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 849

سوال

(254) اذانِ تہجد اور صفیں سیدھی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل سوالات پر آپ کی رہنمائی درکار ہے۔(نذیر احمد،جامعہ ابی بکر،کراچی)

۱۔         تہجد اور فجر کی اذان کا وقفہ کتنا ہونا چاہئے؟

۲۔        الصلاۃ خیر من النوم کس اذان میں کہنا چاہئے؟

۳۔        کیا تہجد کی اذان کا تعلق خاص رمضان سے ہے؟

۴۔        صفیں درست کرانے کے لئے امام کے کیا فرائض ہیں؟

۵۔        جماعت میں کیا بچوں کے لئے علیحدہ صف بنانا چاہئے؟

۶۔        مقتدی اگر امام سے تقدیم کریں تو ان کے لئے کیا وعید ہے؟

۷۔        جہر نمازوں میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی آیات تلاوت کی جاسکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ۱۔ شرع میں تہجد کی اذان کا ثبوت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رات کے مختلف اوقات میں تہجد پڑھتے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے :

 ’وَکَانَ لاَ تَشَاءُ أَنْ تَرَاهُ مِنَ اللَّیْلِ مُصَلِّیًا إِلَّا رَأَیْتَهُ، وَلاَ نَائِمًا إِلَّا رَأَیْتَهُ‘صحیح البخاری،بَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ ﷺ بِاللَّیْلِ مِنْ نَوْمِهِ، وَمَا نُسِخَ مِنْ قِیَامِ اللَّیْلِ،رقم:۱۱۴۱

’’اگر تم رات کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے ہو اور اگر سویا ہوا دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے ہو۔‘‘

اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’مَا أَلْفَاهُ السَّحَرُ عِنْدِی إِلَّا نَائِمًا تَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ‘ ’میرے پاس تو سحر کے وقت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سوئے ہی رہے۔‘‘( صحیح البخاری:باب من نام عندالسحررقم :۱۱۳۳)

یہ احادیث اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ نماز تہجد کا وقت متعین نہیں اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کے لئے اذان بھی نہیں اور جہاں تک بلالی اذان کا تعلق ہے سو حدیث میں اس کے دو مقصد بیان ہوئے ہیں۔ تہجد گزار تہجد ختم کردیں لیرجع قائمکم اور سوئے ہوئے بیدار ہوجائیں (ولینبه نائمکم)۔ صحیح البخاری باب الاذان قبل الفجر رقم:۶۲۱

اسکے علاوہ تیسرا کوئی مقصد نہیں۔ دونوں اذانوں میں وقفہ کے بارے میں نسائی میں ہے:

’ وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَهُمَا إِلَّا أَنْ یَنْزِلَ هَذَا وَیَصْعَدَ هَذَا ‘سنن النسائی، هَلْ یُؤَذِّنَانِ جَمِیعًا أَوْ فُرَادَی، رقم:۶۳۹

یعنی ’’دونوں صرف اتنا ہی وقفہ ہوتا کہ ایک اترتا اور دوسرا چڑ ھ جاتا...‘‘

مراد بہت کم وقفہ ہوتا تھا۔ مبالغہ پر محمول کیا جائے تو قریباً بیس پچیس منٹ۔

۲۔        جہاں صبح کی دو اذانوں کا اہتمام ہو۔ وہاں پہلی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کہا جائے اور ایک کی صورت میں موجودہ اذان میں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

’ کَانَ فِی الأَذَانِ الأََوَّلِ مِنَ الصُّبحِ ، الصَّلَاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ۔‘ السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ التَّثْوِیبِ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ، رقم:۱۹۸۶،شرح مشکل الآثار، رقم:۶۰۸۲

             اور ابو محذورہ کی روایت میں ہے :

’ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ عَلَّمَهٗ فِی الاٰذَانِ مِنَ الصُّبحِ، الصَّلَاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ ‘شرح المعانی الآثار للطحاوی،بَابُ قَولِ المُؤَذِّنِ فِی أَذَانِ الصُّبحِ الصَّلَاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ …الخ، رقم:۸۴۰، السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ التَّثْوِیبِ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ، رقم:۱۹۷۹

۳۔         نیز صبح کی پہلی اذان کا تعلق صرف رمضان سے نہیں، کیونکہ صحابۂ کرام ؓ رمضان کے علاوہ بھی کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ اذانِ بلالی میں فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے الفاظ محض اشتباہ دور کرنے کے لئے ہیں کہ بلالی اذان سے کھانا پینا حرام نہیں ہوتا۔ ( ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح:۲۸۱/۱،۴۴۴/۱)

۴۔        امام کا فرض ہے کہ وہ خود نمازیوں کی صفیں سیدھی کرے، یہاں تک کہ نمازی صف بندی سیکھ جائیں۔حضرت نعمان بن بشیرؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہماری صفیں برابر کیا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسا معلوم ہوتا کہ آپ ان سے تیر کی لکڑی برابر فرما رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تاوقتیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سمجھا کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سیکھ چکے ہیں۔ پھر ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نکلے اور تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے نکلا ہوا دیکھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:اے اللہ کے بندو! تم اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرلیا کرو ورنہ اللہ تمہارے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔( صحیح مسلم،بَابُ تَسْوِیَۃِ الصُّفُوفِ، وَإِقَامَتِہَا، وَفَضْلِ الْأَوَّلِ …الخ ،قم:۴۳۶) نیز صفوں کی درستگی کے لئے امام کو جماعت کی طرف چہرہ کرنا چاہئے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نماز کی اِقامت ہوگئی تھی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چہرہ ہماری طرف کرکے فرمایا: ‘‘تم لوگ اپنی صفوں کو درست کرو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں اپنی پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری،بَابُ إِقْبَالِ الإِمَامِ عَلَی النَّاسِ، عِنْدَ تَسْوِیَۃِ الصُّفُوفِ،رقم:۷۱۹)

اور صفوں کی درستگی کے لئے امام کسی اورکو بھی مقرر کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  لوگوں کو صفیں برابر کرنے کا حکم دے دیتے تھے اور جب لوگ لوٹ کر خبر دیتے کہ صفیں برابر ہوگئیں ہیں اس وقت تکبیر کہتے۔( الموطأ إمام مالک:کتاب قصر الصلوۃ فی السفر،باب ما جاء فی التسویۃ الصفوف،رقم:۵۴۲)

راوی بیان کرتا ہے کہ میں عثمان بن عفان کے ساتھ تھا کہ نما زکے لئے تکبیر ہوئی اور میں ان سے اپنے لئے وظیفہ مقرر کرنے کے متعلق بات کرتا رہا وہ اپنے جوتوں سے کنکریاں برابر کرتے رہے یہاں تک کہ مقرر کردہ لوگوں نے آکر صفوں کے برابر ہونے کی خبر دی تو حضرت عثمانؓ نے مجھے کہا :صف میں صحیح طو ر پرکھڑا ہوجا، پھر آپ نے تکبیر تحریمہ کہی۔( الموطأ إمام مالک:کتاب قصر الصلوۃ فی السفر،باب ما جاء فی التسویۃ الصفوف،رقم:۵۴۳)

۵۔        بچوں کے لیے علیحدہ صف بندی کی ضرورت نہیں ، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔منیٰ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما  بڑوں کی صف میں شامل ہوتے تھے۔ فرمایا: ’ وَدَخَلتُ فِی الصَّفِّ، فَلَم یُنکِر ذَلِکَ عَلَیَّ أَحَدٌ۔‘’’میں صف میں داخل ہوا، پس مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔‘‘ (صحیح البخاری،بَابُ سُترَۃُ الإِمَامِ سُترَۃُ مَن خَلفَہُ،رقم:۴۹۳)

نماز تہجد میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابن عباسؓ جو ابھی بچے تھے، کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا اور حضر ت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

’ فَقَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وَالیَتِیمُ مَعِیَ ، وَالعَجُوزُ مِن وَرَائِنَا ، فَصَلّٰی بِنَا رَکعَتَینِ ‘صحیح البخاری،باب وضوء الصبیان …الخ ،رقم:۸۶۰

۶۔         رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:امام سے پہلے سراٹھانے والے کو (کیا) اس بات سے ڈر نہیں لگتا ہے کہ اللہ اس کا سر کہیں گدھے کے سر سے نہ بدل دے۔ صحیح البخاری ،بَابُ إِثْمِ مَنْ رَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلَ الإِمَامِ ،رقم:۶۹۱

اس سے معلوم ہوا امام سے سبقت کرنا سخت وعید کا باعث ہے۔

۷۔         فاتحہ کے علاوہ آدمی کو اختیار ہے نماز میں جتنی آیات چاہے تلاوت کرسکتا ہے اور اگر نہ بھی ملائے تب بھی نماز درست ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:232

محدث فتویٰ

تبصرے