ایک شخص نے ایک مسجد کو نمازیوں کے وضو کرنے سے کے لیے تانبے کا اتنا بڑا برتن وقف کیا ہے جس میں دس مٹکے کے قریب پانی آتا ہے مگر اب اس مسجد میں وضو کے لیے ایک حوض بنا دیا گیا ہے جس سے برتن (ٹانکی) بالکل بے کار ہو گیا ہے۔ اس میں پانی بھرنے کی ضرورت نہیں، مصلی حوض کے پانی سے وضو کرتے ہیں، اب اس برتن کی اس مسجد میں مطلق ضرورت نہیں ہے، اور دوسرے گاؤں میں ایک نئی مسجد تعمیر ہوئی ہے جس میں وضو کے پانی کے لیے برتن کی ضرورت ہے، پس کیا یہ برتن اُس نئی مسجد میں لے جا سکتے ہیں؟ اور کیا ایک مسجد کی چیز دوسری مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں؟
_______________________________________________
جب وقف شدہ چیز بے کار ہو جائے یا ضائع ہوتی ہوئی نظر آئے تو ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے کہ وہ ضائع نہ ہو، اور کار آمد ہو سکے۔ مثلاً اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت اسی موقوف علیہ مسجد پر لگا دے یا کسی دوسری مسجد میں اس چیز کی ضرورت ہو تو اس میں صرف کر دی جائے۔
عن عائشة قالت سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم یقول: «لو لا ان قومك حدیثو عھد بجاھلیة أو قال بکفر لا نفقت کنز الکعبة فی سبیل اللّٰہ ولجعلت بابھا بالأرض ولا دخلت فیھا من الحجر» (مسلم)
کنز کعبہ سے مراد وہ اموال ہیں، جو زائرین خانہ کعبہ نذر کیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ خزانہ بیت اللہ کی ضروریات اور حاجت سے زائد ہے تو فی سبیل اللہ تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن عذر مذکور فی الحدیث کی وجہ سے اس ارادہ کو پورا نہیں فرمایا، معلوم ہوا کہ وقف شدہ چیز بے کار ہو جائے یا ضائع ہوتی ہوئی نظر آئے تو ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے کہ وہ ضائع نہ ہو۔(محدث دہلی جلد نمبر ۸ ش نمبر ۴)