سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) الصلوٰۃ خیر من النوم فجر کی کس اذان میں؟

  • 24259
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3066

سوال

(249) الصلوٰۃ خیر من النوم فجر کی کس اذان میں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اذان میں تثویب یعنی ’’الصلوٰۃ خیرمن النوم‘‘کا فجر کی پہلی اذان میں کہا جانا سنت ہے یا دوسری اذان میں؟  ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘میں آپ نے اظہار فرمایا کہ کلماتِ تثویب اذانِ اوّل میں کہے جانے چاہئیں۔ اس پر میں نے اپنے اطمینان کے لئے آپ سے وضاحت چاہی تو آپ نے ’’الاعتصام‘‘مورخہ ۱۴/اگست ء۱۹۹۸ میں بحوالہ روایات مزید وضاحت کردی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور پھر تعامل صحابہؓ کا صحیح علم ہوسکے۔ اب ایک پرانا کتابچہ ’’اذانِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم  ‘‘مصنفہ مولانا محمد بن ابراہیم جونا گڑھی (ناشر مکتبہ سعودیہ، حدیث منزل، کراچی نمبر۱) نظر سے گذرا جس کے صفحہ پر مولانا موصوف رقم طراز ہیں کہ ’’اذانِ سحری میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘نہیں کہا جائے گا (کیونکہ وہ اذانِ فجر کے ساتھ مخصوص ہے۔) اور اذانِ فجر میں یہ مقولہ دوبار دہرایا جائے گا۔ گویا دوسری اذانِ صلوٰۃ الفجر میں ہی تثویب کا عمل قرار پایا۔ جیسا کہ ہند وپاک نیز سعودی عرب میں بھی رائج ہے۔ علما کی اس پر تنقید قبل ازیں ہماری شنید میں نہیں آئی۔

اب تحقیق طلب بات یہ ہے کہ اگر سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور قرونِ اولیٰ کے مطابق تثویب کا عمل اذانِ اول میں ہی رہا تھا تو پھر متاخرین میں دوسری اذان میں تثویب کا رواج کیسے پاگیا؟ ان کے پاس اس کے دفاع کی کیا دلیل ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ کئی جگہوں پرایک اذان صلوٰۃ الفجر ہی کہی جاتی ہے، اس لئے اس میں ہی تثویب کا رواج پاگیا تو پھربھی یہ نبوی اذان میں اپنی طرف سے اضافہ ٹھہرے گا جسے بے نقاب کرنا علما کا فرض ہے ورنہ عوام اسی کو صحیح سنت سے تعبیر کریں گے۔ اس مسئلے کا حل فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (ڈاکٹرعبیدالرحمن چوہدری،مصطفی آباد، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱۔ جواب  الجواب بعون الوہاب  ( از مولانا حافظ عبد القہار، کراچی منقول از ’’صحیفہ اہلحدیث‘‘کراچی)

صورتِ مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعاً الصلاۃ خیر من النوم صبح کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دو بار موذن کوکہنا چاہئے۔ مشروع و مسنون یہی ہے جس کے مفصل دلائل محولہ بالا فتویٰ میں بیان ہوچکے ہیں جو کثیر تعداد میں ہیں اور زیادہ صحیح و قوی ہیں۔ البتہ سنن نسائی میں ابوسلیمان کی سند سے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

’کُنْتُ أُؤَذِّنُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَکُنْتُ أَقُولُ فِی أَذَانِ الْفَجْرِ الْأَوَّلِ: حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ. الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ. الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ. اللَّهُ أَکْبَرُ. اللَّهُ أَکْبَرُ. لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ .‘ سنن النسائی، التَّثْوِیبُ فِی أَذَانِ الْفَجْرِ،رقم:۶۴۷

’’فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے اذان دیتا تھا تو میں فجر اوّل کی اذان میں حی علی الفلاح کہہ کر الصلاۃخیر من النوم پھر اﷲ اکبر،ﷲ اکبر لا إلہ إلا اﷲ کہتا تھا۔‘‘ (ج۱، ص۷۵، مطبع رحیمیہ، دہلی)

اس حدیث کو اگرچہ علامہ البانی  رحمہ اللہ  نے صحیح نسائی میں شمار کیا ہے، جبکہ ابومحذورہ ؓ کی بیت الحرام کے پاس اذان دینے والی حدیث اور ایک ایک حرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ  والی حدیث جس میں فجر کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کہنے کا ذکر ہے، ان دونوں کو صحیح نسائی اور صحیح ابوداود میں شمار کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے، اور نسائی والی روایت فجر اوّل میں الصلاۃ خیر من النوم کہنے والی سند میں جسے ابوجعفر الفراء سے سفیان ثوری کی روایت سے امام نسائی نے ذکر کیا اور مراد لیا ہے، لیکن حقیقت میں وہ ابوجعفر الفراء نہیں ہے۔ اس طرح یہ مجہول العین کی روایت شمار ہوگی جو کہ ضعیف کہلاتی ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث:

’ قال : کان فی الاذان الاول بعد الفلاح، الصلاة خیر من النوم، الصلاة خیر من النوم ‘اخرجه الطحاوی فی شرح معانی الآثار:۹۵/۱، والبیهقی فی السنن الکبریٰ:۴۲۳/۱، والدارقطنی فی سننه:۲۴۳/۱

کہ پہلی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دو بار الصلاۃ خیر من النوم کہاجاتا تھا۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں فجر اوّل اور اذانِ اوّل کا جو ذکر آیا ہے، اس سے مراد فجر کی حقیقی اذان ہے جو نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد دی جاتی ہے، وہ اذان مراد نہیں ہے جو حضرت بلال ؓ صبح کی اذان سے چندمنٹ پہلے دیا کرتے تھے، اور یہاں اوّل اُولیٰ کا لفظ اقامت کے مقابلہ میں بولا گیاہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ  تحریر فرماتے ہیں:

هذا نص علی ان المراد من النداء الاول هو النداء الذی بعد دخول الوقت والنداء الاول هو بالنسبة إلی الإقامة (النووی:۲۵۵/۱)

’’اس اذانِ اوّل سے وہی اذان مراد ہے کہ جو نمازکے وقت کے داخل ہونے کے بعد نماز کی طرف بلانے کے لئے دی جاتی ہے اور اسے اقامت کے مقابلے میں اذانِ اوّل کہہ دیا گیا ہے۔‘‘

( یہ تاویل اس وقت صحیح ہے جب فجر کی صرف ایک اذان اور اقامت ہو تو واقعتا ندائے اقامت سے پہلے ندائے اذان ہی پہلی پکار ہے لیکن جب فجر کی دو اذانیں دی جائیں تو پھر تین دفعہ کی پکار میں سے دوسری پکار فجر کی دوسری اذان ہوگی اور پہلی پکار فجر کی پہلی اذان جو صبح کاذب کے وقت دی جاتی ہے۔ جمہور علماء روایات کے اختلاف کے وقت پہلے جمع/تطبیق کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ابتداء ہی سے تاویل شروع کردی جائے تو مناسب نہیں ہوتا۔ تاویل معنوی ترجیح کی قسم شمار ہوتی ہے۔ اصولی طور پر جمع و تطبیق ، ترجیح سے مقدم ہے۔ (محدث)

علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ  رقم طراز ہیں:

بالاولی ای عن الاولیٰ وهی متعلقة بسکت یقال سکت عن کذا إذا ترکه، والمراد بالاولی الاذان الذی یوذن به عند دخول الوقت، وهو اول باعتبار الإقامة، و ثان باعتبار الاذان الذی قبل الفجرو جاءه التانیث إمامن قبل مواخاته للإقامة اولانه ارادالمناداة اوالدعوة التامة، ویحتمل ان یکون صفة لمحذوف والتقدیر إذا سکت عن المرة الاولی او فی المرة الاولی

یعنی ’’اولیٰ سے مراد وہ اذان ہے جو نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے پر دی جاتی ہے۔ یہ اقامت کے مقابلے میں پہلی اذان اور فجر سے پہلے دی جانے والی اذان کے مقابلے میں دوسری اذان ہے۔ یہاں اولیٰ (صیغہ مونث) یا تو اقامت کے مقابلے میں بولا گیا ہے یا مناداۃ یا دعوۃ ِتامہ کے مقابلے میں او ریہ بھی احتمال ہے کہ یہاں محذوف عبارت اس طرح ہو کہ جب موذن پہلی مرتبہ خاموش ہوجائے۔‘‘ فتح الباری:،۱۰۹/۲،۱۱۰

گویا’’الاولیٰ‘‘سے مراد وہ اذان ہے جو صبح کی نماز کے وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے۔( یہاں حافظ ابن حجر کی عبارت کا مفہوم سمجھنے میں مفتی صحیفہ اہل حدیث کراچی غلطی کھارہے ہیں کیونکہ یہاں حافظ ابن حجر پہلی اذان کے دو مطلب بیان کر رہے ہیں: اقامت(تکبیر) کے اعتبار سے اذانِ فجر پہلی اذان ہے۔ نمازِ فجر کی دو اذانوں میں سے پہلی اذان( اگر فجر کی دو اذانیں کہی جا ئیں)  لیکن یہاں مفتی صحیفہ صرف ایک مفہوم ہی مخصوص کر رہے ہیں جو فہم کا نقص ہے۔ دراصل مفتی صاحب کو اس بارے میں ہمارے ہاں’اذانِ سحری‘ کے عوامی لفظ سے التباس پیدا ہوا ہے کہ شاید سحری کے کھانے پینے کے لیے جگانے کی غرض سے کوئی اذان مسنون ہے، حالانکہ فجر کی اگر دو اذانیں کہیں جائیں تو دو اذانیں فجر کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ پہلی نمازِ فجر کی تیاری کے لیے وقت فجر سے پہلے فجر(صبح) کاذب کے وقت اور دوسری اذان نمازِ فجر کے اعلان کی غرض سے یعنی سنت رسولe کے مطابق دونوں اذانیں فجر سے متعلق ہی ہیں۔ ورنہ سحری کھانے کے لیے اگر اذان کہی بھی جاتی تو اس میں اَلَاصَلّوا فی الرحال کی قسم سے متعلق ہی ہیں۔ ورنہ سحری کھانے کے لیے اگر اذان کہی بھی جاتی تو اس میں اَلَا صَلّوا فی الرحال کی قسم کے کلمات حی علی الصلوٰۃ وغیرہ کی طرح کہے جاتے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتویٰ مفتی مولانا ابو البرکات مع توثیق حضرت حافظ محمدگوندلوی رحمہ اللہ علیہما نشر کردہ ہفت روزہ ، اہل حدیث، لاہور مجریہ۱۹۷۰/۴ء(جلد:۱،شمارہ:۴۷) (محدث)

اس کی دلیل صریح حدیث میں مذکور ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے حدیث ِعائشہؓ سے ذکرکیا اور جسے امام لیث مصری رحمہ اللہ  نے روایت کیا ہے :

عن عائشة قالت:صلی رسول اﷲ ﷺ العشاء ثم صلی ثمان رکعات ورکعتین جالسا، ورکعتین بین ندائین ولم یکن یدعهما۔ وفی روایة اللیث: ثم یمهل حتی یوذن بالاولی من صلاة الصبح فیرکع رکعتین‘فتح الباری:۳/ ۴۲،۴۳

’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز (تہجد و تراویح) کے بعد دونوں اذانوں کے درمیان دو رکعت پڑھتے تھے (صبح سے پہلے کی سنت). صحیح البخاری،بَابُ المُدَاوَمَۃِ عَلَی رَکْعَتَیِ الفَجْرِ،رقم:۱۱۵۹

دوسری روایت میں ہے کہ پھر کچھ دیر ٹھہرتے یہاں تک کہ موذن صبح کی پہلی اذان دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دو رکعت (صبح سے پہلے کی سنت) ادا فرماتے تھے۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِمذکورہ بالا میں الاول، اولیٰ سے مراد صبح کی وہ اذان ہے جو فجر کا وقت شروع ہونے پر دی جاتی ہے نماز کی دعوت دینے کے لئے۔ اس سے مراد ہرگز وہ اذان نہیں ہے جو وقت فجر کے داخل ہونے سے پندرہ بیس منٹ قبل دی جاتی تھی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  فجر کے داخل ہونے سے پہلے کی اذان کے بعد دو رکعت (فجر کی سنت) نہیں پڑھتے تھے اور نہ دائیں کروٹ اس کے بعد لیٹتے تھے، بلکہ یہ دوگانہ اذانِ فجر کے بعد پڑھتے تھے اور اس کے بعد دائیں کروٹ لیٹا کرتے تھے۔

چنانچہ حدیث ِعائشہؓ میں بالاولی من صلاۃ الفجر اور بلالؓ کی روایت میں و یؤذن لصلاۃ الفجر اور انسؓ والی حدیث میں التثویب فی صلاۃ الغداۃ کے الفاظ بڑی زبردست دلیل ہیں کہ اولیٰ سے مراد وہ اذان ہے جو فجر کے وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے۔ لفظ ’’من‘‘بیانیہ ہے جو اس بات کا مکمل بیان ہے کہ اذانِ اول، مناداۃِ اولیٰ سے مراد صبح کی اذان اور فجر کی اذان ہے۔ اس طرح علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ ، علامہ صنعانی رحمہ اللہ  اور علامہ ابن رسلان رحمہ اللہ  کی دلیل مرجوح قرار پاتی ہے کہ الصلاۃ خیر من النوم نمازِ فجر کے وقت کے داخل ہونے سے پہلے کی اذان میں کہنا چاہئے۔ اس طرح ان حضرات کا یہ قول شاذ سمجھا جائے اور یہ قول کہ اذانِ فجر میں الصلاۃ خیر من النوم کہنا بدعت ہے، اس سے بھی زیادہ شاذ اور عجیب بات ہے۔

یاد رہے کہ اذان کا اطلاق، اقامت و تکبیر کے لئے متعدد احادیث میں ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :

’ قال النبیﷺ : بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلاَةٌ، بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلاَةٌ، ثُمَّ قَالَ فِی الثَّالِثَةِ: لِمَنْ شَاءَ‘متفق علیه، صحیح البخاری،بَابٌ: بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلاَةٌ لِمَنْ شَاء َ،رقم:۶۲۷

’’ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ دو اذانوں کے درمیان نماز (نفل) مشروع و مسنون ہے۔ پھر تیسری بار فرمایا کہ یہ مستحب ہے جو چاہے پڑھ لے اور جونہ پڑھے، کوئی حرج کی بات نہیں۔‘‘

اس طرح حضرت عائشہؓ والی سابقہ حدیث میں ’’ورکعتین بین الندائین‘‘2 اور دونوں اذانوں کے درمیان دو رکعت (صبح کی سنت) ادا فرماتے تھے، سے مراد متفقہ طور پر دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ اس میں کسی کا کوئی قابل ذکر اختلاف موجود نہیں ہے۔

علامہ خطابی رحمہ اللہ  تحریر فرماتے ہیں:

’اراد بالاذانین:الاذان والإ قامة حمل احد الاسمین علی الاخر کقولهم الاسودان:التمر والماء إنما الاسود احدهما، وکقولهم سیرة العمرین، یریدون ابابکرؓ وعمر ویحتمل ان یکون الاسم لکل واحد منها حقیقة، لان الاذان فی اللغة الإعلام، فالاذان إعلام بحضور الوقت، والإقامة اذان بفعل الصلاة  ‘صحیح البخاری،بَابُ المُدَاوَمَةِ عَلَی رَکْعَتَیِ الفَجْرِ،رقم:۱۱۵۹

’’اذانین سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ دونوں کو ’’اذانین‘‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایک کو دوسرے پر محمول کردیا گیا ہے جس طرح کھجور او رپانی دونوں پر ’’اسودین‘‘کا لفظ بول دیا جاتا ہے حالانکہ اسود (سیاہ) ان میں سے صرف ایک ہے۔ اسی طرح سیرتِ عمرین سے ابوبکرؓ اور عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت مراد ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اذان اور اقامت دونوں کے لئے حقیقی طور پر یہ لفظ ’’اذانین‘‘بولا گیا ہو کیونکہ اذن کا لغوی معنی اطلاع دینا ہے۔ لہٰذا اذان (نماز کا) وقت ہوجانے کی اطلاع ہے اور اقامت نماز (کھڑی ہونے) کے وقت کی اطلاع ہے۔‘‘

امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’المراد بالاذانین:الاذان والإقامۃ‘‘شرح مسلم:۲۷۸/۱

’’اذانین سے مراد اذان اور اقامت ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  تحریر فرماتے ہیں :

’ ای اذان و إقامة وتوارد الشراح علی ان هذا من باب التغلیب کقولهم القمرین للشمس والقمرویحتمل ان یکون اطلق علی الإقامة اذان لانها إعلام بحضور فعل الصلاة، کما ان الاذان إعلام بدخول الوقت‘فتح الباری:۱۰۷/۲

‘‘جس طرح چاند سورج دونوں کے لئے قمرین (دو چاند)غالباً کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان واقامت کے لئے بھی اذانین (دو اذانیں) استعمال ہوگیا ہے اور اقامت پر اذان کا اطلاق اس طرح درست ہے کہ وہ عمل نماز کے شروع ہونے کی اطلاع ہوتی ہے، جس طرح اذان، نماز کے وقت کے داخل ہوجانے کی اطلاع ہوتی ہے۔ ’’

سنن نسائی پرعربی حاشیہ علامہ شیخ عطاء اللہ بھوجیانی  رحمہ اللہ  نے تحریر فرمایا ہے، جس میں انہوں نے بھی مختلف فیہ حدیث ابی محذورہ رضی اللہ عنہ میں اذانِ اول سے مراد فجر کے داخل ہوجانے پر صبح کی جو اذان دی جاتی ہے، وہی مراد لی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم

مزید تفصیل کے لئے علامہ شیخ عبدالعزیز نورستانی کی کتاب الإعلان مطالعہ فرمائیں۔

جواب  الجواب بعون الوہاب (از حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ)

اصل بات یہ ہے کہ صبح کی ایک اذان دینے کی صورت میں کلمہ الصلاۃ خیرمن النوم اسی اذان میں کہنے کے بارے میں ہی وارد ہوا ہے، مطلق احادیث میں اسی بات کابیان ہے۔ اختلاف اس صورت میں ہے کہ صبح کی دو اذانوں کی صورت میں یہ کلمہ کون سی اذان میں کہا جائے؟ صحیفہ اہلحدیث کراچی کے مفتیانِ کرام نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں جتنے دلائل پیش کئے ہیں، وہ سب عمومی ہیں، ان سے مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ محل نزاع میں بطورِ نص روایت مطلوب ہے جو یہاں مفقود ہے۔ پھر ان حضرات ِاہل علم وفضل نے سارا زور اس بات پر صرف کیا ہے کہ پہلی اذان سحری کی اذان ہے حالانکہ کسی روایت میں سحری کی اذان کے سرے سے الفاظ ہی نہیں۔( سحری کی اذان کے عوامی الفاظ برصغیر پاک و ہند کے عوام میں مشہور ہو گئے ہیں جو غلط فہمی کا باعث بن رہے ہیں ورنہ شرع میں سحری کھانے کے لیے مسنون کلمات اذان کا استعمال نہ کہیں احادیث میں آیا ہے اور نہ ہی یہ معقول امر ہے کیونکہ اگر بارش کی وجہ سے نماز باجماعت مشکل ہو رہی ہو تو کلماتِ اذان میں بھی تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے اَلَا صَلّوا فی الرّحال یعنی نماز باجماعت کے لیے آنے کی بجائے اپنے ڈیروں پر ہی نماز ادا کر لی جائے۔ مراد یہ ہے کہ شریعت مقاصد کے مطابق ہی بلاتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ مقصد تو سحری کھلانا ہو لیکن دہائی حی علی الصلوٰۃ ( نماز کی طرف آؤ) کی جائے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ماہنامہ محدث، لاہور مجریہ، نومبر۱۹۷۱ئ، رمضان :۱۳۹۱ھ، جلد:۱،عدد:۱۲)

 امام بخاری  رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں بلالی اذان پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: باب الاذان قبل الفجر یعنی فجر سے پہلے اذان کا کیا حکم ہے، مسنون ہے یا غیر مسنون؟ مشروعیت کی صورت میں یہ دوسری اذان سے کفایت کر سکتی ہے یا نہیں؟( فتح الباری:۱۰۴/۲)

ائمہ کرام کا بھی اس بارے میں اختلاف ہے کہ (وقت ِفجر سے قبل)پہلی اذان دوسری اذان کی جگہ کافی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر یہ اذان سحری یا تہجد کی ہے جس طرح کہ موصوفین کا زعم ہے تو پھر اس اختلاف کا کیا مطلب؟

دراصل اس اذان کا تعلق بھی من و جہ فجر سے ہے، اس لئے ائمہ میں ا ختلاف پیدا ہوگیا۔ پھر ان حضرات کا یہ دعویٰ کہ صبح صادق کی اذان زیادہ تر حضرت بلالؓ ہی دیا کرتے تھے۔ بلادلیل اور نصوصِ صحیحہ کے خلاف ہے۔مفتی صحیفہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   کی متعارض روایات میں بعض احتمالی توجیہات کا سہارا لے کر یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا ہے اور حافظ موصوف کی فیصلہ کن بات جو ان کے مخالف تھی، اس کو چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

’ ثم فی اٰخرالامراخر ابن امّ مکتوم لضعفه ووکل به من یراعی الفجر واستقر اذان بلال بلیل‘فتح الباری :۱۰۳/۲

’’پھر آخری امر میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن امّ مکتوم کی اذان کو ان کے ضعف کی وجہ سے موخر کردیا اور ان کے ساتھ نگہبان مقرر کردیا جو ان کو طلوعِ فجر سے آگاہ کرے اور بلالؓ کی اذان مستقل طور پر رات کو مقرر ہوگئی۔‘‘

عون المعبود (۲۱۰/۱) میں ہے:

’ فإن الثابت عن بلال انه کان فی اٰخر ایام رسول الله صلی الله علیه وسلم  یوذن بلیل ثم یوذن بعده ابن امّ مکتوم مع الفجر‘

یعنی ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ  سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کے اخیر میں وہ رات کو اذان دے دیتے تھے پھر ان کے بعد ابن امّ مکتوم فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

’ إِنَّ بِلاَلًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ، فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ‘صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ الفَجْرِ،رقم:۶۲۰

’’بلال رات کو اذان دیتا ہے پس تم کھاتے پیتے رہویہاںتک کہ ابن اُمّ مکتوم اذان دے۔ ’’

واضح ہو کہ شرع میں کھانے پینے کے لئے کسی اذان کا کوئی وجود نہیں، بلالی اذان میں کھانے پینے کا لفظ محض اشتباہ دور کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے کہ یہ اذان کھانے پینے سے روکنے والی نہیں بلکہ وہ ابن امّ مکتوم کی اذان ہے۔ اس پر بیہقی نے یوں باب قائم کیا ہے:

’ باب اذان الاعمی إذا اذن بصیر قبله او اخبره لوقت‘

محل بحث میں نصوصِ صریحہ واضحہ کو ترک کرکے عمومات سے استناد لینا ماہرین کے قواعد وضوابط کے خلاف ہے اور بلاو جہ تاویلات کا دروازہ کھولنا ایک غلط انداز ہے۔ ہاں البتہ اقتضائی صورت میں اس کا کوئی حرج نہیں کہ اذان کا اطلاق تکبیر پر ہو۔ تاہم مقامِ گفتگو میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شرع میں فجر کی مستقلاً دو اذانیں ہیں جبکہ دوسری طرف متعدد روایات میں پہلی اذان کی تصریح بھی موجود ہے۔ چنانچہ سبل السلام (۴۶/۲) میں بحوالہ نسائی ہے: الصلاة خیر من النوم، الصلاة خیر من النوم فی الاذان الاولی من الصبح اس سے مطلق روایات مقید ہوجاتی ہیں۔

ابن رسلان نے کہا کہ اس روایت کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ تثویب(الصلوۃ خیر من النوم) فجر کی پہلی اذان میں ہے کیونکہ یہ سونے والے کو بیدار کرنے کے لئے ہے۔ دوسری اذان نماز کے دخولِ وقت کا اعلان اور نماز کی طرف دعوت کے لئے ہے۔ اور نسائی کی سنن کبریٰ (اور صغریٰ) میں ابومحذورہ کا بیان ہے:

’ کُنْتُ أُؤَذِّنُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَکُنْتُ أَقُولُ فِی أَذَانِ الْفَجْرِ الْأَوَّلِ: حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ. الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ. الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ.‘ سنن النسائی، التَّثْوِیبُ فِی أَذَانِ الْفَجْرِ،رقم:۶۴۷

 ابن حزم نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ علامہ البانی نے بھی اس پر صحت کا حکم لگایا ہے اور صحیح ابی داود میں جملہ طرق اور شواہد کی بنا پر اس کو صحیح قرار دیا ہے یہ کتاب چندماہ قبل کویت سے پہلی مرتبہ طبع ہوئی ہے۔ بلا تحقیق حدیث ِہذا کو ضعیف قرار دینا درست نہیں۔

اس طرح سنن کبریٰ بیہقی میں ابومحذورہ کی حدیث میں ہے: انه کان یثوب فی الاذان الاول من الصبح بامرهﷺ  ’’ابومحذورہ صبح کی پہلی اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے الصلاۃ خیر من النوم کہا کرتے تھے۔

مشکوٰۃ میں بحوالہ ابوادود الفاظ یوں ہیں: فإن کان صلاة الصبح قلت الصلاة خیر من النوم اگر صبح کی نماز ہو تو الصلاۃ خیر من النوم کہا کرو۔ حواشی مشکوٰۃ میں اس پر علامہ البانی رقم طراز ہیں:

وذلك فی الاذان الاول للصبح کما فی روایة اخری لابی داود

’’یہ کلمہ صبح کی پہلی اذان میں کہا جائے گا جس طرح کہ ابوداؤد کی دوسری روایت میں ہے۔‘‘ (حدیث رقم:۶۴۳)

نیز حدیث ابومحذورہ میں ہے:

’ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ عَلَّمَهٗ فِی الاٰذَانِ مِنَ الصُّبحِ، الصَّلَاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ ‘شرح المعانی الآثار للطحاوی،بَابُ قَولِ المُؤَذِّنِ فِی أَذَانِ الصُّبحِ الصَّلَاةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ …الخ، رقم:۸۴۰، السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ التَّثْوِیبِ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ، رقم:۱۹۷۹

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابومحذورہ کو تعلیم دی کہ صبح کی پہلی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کہا کرے۔‘‘

اور ابن عمر کی روایت میں ہے: 

’ کَانَ فِی الأَذَانِ الاَوَّلِ بَعدَ الفَلَاحِ ، اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِّنَ النَّومِ مَرَّتَینِ ‘السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ التَّثْوِیبِ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ، رقم:۱۹۸۶،شرح مشکل الآثار، رقم:۶۰۸۲

’’پہلی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد الصلاۃ خیر من النوم کہا جاتا تھا۔‘‘

مذکورہ جملہ دلائل میں اس امر کی تصریح ہے کہ الصلاۃخیرمن النوم صبح کی پہلی اذان میں کہا جائے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ جہاں صبح کی پہلی اذان کا اہتمام نہ ہو، وہاں یہ کلمہ دوسری اذان میں کہا جائے، اس صورت میں عمومی احادیث پرعمل ہوگا اور یہ فعل ’’إحداث فی الاذان‘‘ کے زمرہ میں داخل نہیں ہوگا اور کلمہ الصلاۃ خیر من النوم بھی اس بات کا متقاضی ہے۔ دونوں اذانوں میں قدرِ مشترک چونکہ صبح کی نماز کے لئے بیدار کرنا ہے سو وہ حاصل ہے اور اس لئے بھی کہ اصل دوسری اذان ہے پہلی کا اضافہ مخصوص اغراض کے پیش نظر ہوا۔ اسی اصلی ترتیب کی بنا پر امام بخاری  رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب الاذان بعد الفجر کا عنوان پہلے قائم کیا ہے۔ پھر باب الاذان قبل الفجر کی تبویب ذکر کی ہے۔

یہ اس طرح سمجھیں کہ مسافر پر جمعہ نہیں، اگر وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پڑھنا چاہے تو اس کی اجازت ہے اور جمعہ فوت ہونے کی صور ت میں ظہر بہرصورت پڑھنی پڑتی ہے، اس طرح کلمہ الصلاۃ خیر النوم پہلی اذان کے عدم کی صورت میں دوسری اذان کی طرف منتقل ہوجائے گا ...تاہم جن اصحابِ علم کا نکتہ نظریہ ہے کہ یہ حکم پہلی اذان کے ساتھ ہی مخصوص ہے خواہ فجر کی ایک اذان ہی کہی جائے ۔مذکورہ علل اور وجوہات کی بنا پر میرے نزدیک یہ مسلک مرجوح ہے۔

آخر میں محترم ڈاکٹر صاحب کو میرا مشورہ ہے جب کسی مسئلہ میں بحث کی صورت میں طوالت نظر آئے تو بذاتِ خود موضوع سے متعلقہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اوراشکالات کی صورت میں پختہ کار علما سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:221

محدث فتویٰ

تبصرے