سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) امام کا خود ہی اذان اور تکبیر کہنا

  • 24240
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4368

سوال

(230) امام کا خود ہی اذان اور تکبیر کہنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا امام خود اذان دے کر اور خود ہی تکبیر کہہ کر خود ہی جماعت کروا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عہدِ اول سے اصل معمول بہا ( جس پر عمل رہا) یہ ہے کہ موذّن امام سے علیحدہ ہو، لیکن اگر امام خود ہی مؤذن اور مُکَبّر بن جائے تو شریعت میں اس کا بھی جواز موجود ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تیرا رب بکریوں کے اس چرواہے سے تعجب کرتا ہے، جو پہاڑ کی چوٹی کے اوپر بکریاں چراتا ہے، وہاں اذان دیتا، اور نماز پڑھتا ہے ۔ اﷲتعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: کہ میرے اس بندے کی طرف دیکھو، نماز کے لیے اذان اور اقامت کہتا ہے۔ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اسے معاف کرکے جنت میں داخل کردیا۔(ابوداؤد، النسائی) سنن أبی داؤد، باب الاذان فی السفر ،رقم:۱۲۰۳ ، و قال المنذری: رجال اسنادہ ثقات

اس طرح دوسری روایت میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ  اور اس کے رفیق سفر سے فرمایا:

’اِذَا أَنتُمَا خَرَجتُمَا فَأَذِّنَا ثُمَّ أَقِیمَا ثُمَّ لَیَؤُمَّکُمَا أَکبَرُکُمَا‘ (صحیح البخاری، باب الاذان للمسافر اذا کانوا جماعة والإقامة،رقم:۶۳۰)

یعنی ’’جب تم دونوں سفر میں نکلو تو تم دونوں کہو اذان، پھر دونوں اقامت کہو، پھر دونوں سے جو بڑا ہے، وہ امامت کرائے۔‘‘

پہلی حدیث میں خود امام کی اذان اور اقامت کی تصریح موجود ہے، جب کہ دوسری روایت میں دونوں کو اذان اور اقامت کے جواز میں برابر قرار دیا گیا ہے۔ تفاوت صرف اطاعت کے اعتبار سے ہے کہ اس کا حقدار بڑا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام اذان اور اقامت کہہ سکتا ہے۔ شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: کہ اگر کوئی شخص امامت اور اذان ہر دو کو جمع کرے تو اس میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ مستحب یہ بات ہے کہ اس طرح نہ کرے ۔بعض نے کہا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔محققین اور اکثر علماء کا کہنا ہے: کہ اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ بلکہ یہ مستحب ہے۔ یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ فقہ حنفی شافعی وغیرہ میں تو افضل ہی اس بات کو قرار دیا ہے کہ امام خود ہی مؤذن ہونا چاہیے۔

 ابن عابدین رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہ نفس ِ نفیس أذان اور اقامت دونوں کو ملا کر کہا کرتے تھے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا قول مشہور ہے کہ اگر خلافت کے ساتھ میں اذان دینے کا کام بھی نبھاہ سکتا تو اذان دیاکرتا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:212

محدث فتویٰ

تبصرے