سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(224) کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لانا چاہیے؟

  • 24234
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2242

سوال

(224) کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لانا چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک میں،خصوصاً افطاری کے وقت چھوٹے چھوٹے بچے مسجد میں آجاتے ہیںاور کچھ حضرات ساتھ لے آتے ہیں، کچھ بچے جن میں اکثر کا روزہ نہیں، نماز سے پہلے ہی گھر لوٹ جاتے ہیں، بقایا نماز کے دوران عموماً مسجد میں دوڑ بھاگ کرتے ، باتیں اور شرارتیں بھی کرتے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانی وغیرہ۔ کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر بچوں کو منع کریں گے تویہ بڑے ہو کر مسجد میں نہیں آئیں گے۔ برائے نوازش ارشاد فرمائیں کہ کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لانا چاہیے؟ حدیث خیر الأنام کے مطابق، جیسا کہ اکثر علماء حضرات سے سنا ہے کہ سات سال کی عمر کے بچے کو نماز کی ترغیب دیں۔ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر ماریں۔ مسجدیں ہی امن کی جگہ ہیں۔ اگر مسجد میں ہی خشوع والی نماز نصیب نہ ہوتو کہاں جائیں۔ کیونکہ بچوں کی وجہ سے جیسے اوپر ذکر کیا ہے توجہ بٹ جاتی ہے۔ بعض حضرات یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  منبر پر تشریف فرما تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، جن کی عمر اس وقت ۴ سال تھی،مسجد میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے منبر سے اتر کر ان کو گود میں لے لیا۔ اس حوالہ سے بچوں کو مسجد میں لانے یا آنے کا جواز نکلتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا قید عمر کے چھوٹے بچوں کا مسجد میں آنا یا لانا درست فعل ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھاکر نماز پڑھتے تھے: ’فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا‘ بوقت ِ سجدہ اسے بٹھا دیتے اور جب قیام کے لیے اٹھنے لگتے تو اٹھا لیتے۔( صحیح البخاری، بابٌ إِذَا حَمَلَ جَارِیَۃً صَغِیرَۃً عَلٰی عُنُقِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ،رقم:۵۱۶)

شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

وَ عَلٰی جَوازِ إِدخَالِ الصِّبیَانِ فِی المَسَاجِدِ ‘ (فتح الباری۵۹۲/۱)

’’اس حدیث میں بچوں کو مسجدوں میں لانے کا جواز ہے۔‘‘

نیز صحیح مسلم میں راوی کا بیان ہے:

’ رَأَیتُ النَّبِیَّ ﷺ یَؤُمُّ النَّاسَ وَأُمَامَةُ بِنتُ أَبِی العَاصِ وَهِیَ ابنَةُ زَینَبَ بِنتُ النَّبِیِّ ﷺ عَلَی عَاتِقِهِ، فَإِذَا رَکَعَ وَضَعَهَا، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُودِ أَعَادَهَا۔‘( صحیح مسلم،بَابُ جَوَازِ حَمْلَ الصِّبْیَانِ فِی الصَّلَاةِ ، رقم:۵۴۳)

’’ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو لوگوں کی امامت کراتے دیکھا جبکہ امامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کندھے پر سوار تھی……۔‘‘

 اور سنن أبی داؤد میں راوی کے شک کے ساتھ نماز ظہر یا عصر کا ذکر موجود ہے۔

ظاہر ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے محل و مقام مسجد ہے ۔ انہی طُرُق کے پیشِ نظر حافظ موصوف نے مذکور نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں ہے، کہ ایک بچہ عمرو بن سلمہ قرأت میں امتیازی حیثیت کی بناء پر یا سات سال کی عمر میں عہدِ نبوی میں اپنی قوم کا امام تھا۔ (صحیح البخاری،رقم:۴۳۰۲)

واقعہ ہذا سے ظاہر ہے کہ امامت کا شرف موصوف کو مسجد ہی میں حاصل ہوتا تھا اور پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما   صِغرِ سِنِی (چھوٹی عمر) کے باجود جماعت میں شرکت فرماتے تھے۔ چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ اپنی سواری کو منیٰ میں چرنے کے لیے چھوڑ کر خود جماعت میں شریک ہو گیا تھا۔

امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس سے اور دیگر روایات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے، کہ بچوں کا وضوئ، جماعت میں شرکت، عیدین، جنائز اور صفوں میں موجودگی سب ثابت شدہ امور ہیں، جن میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ (صحیح البخاری،۱۱۸/۱)

 مزید آنکہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عشاء کی نماز سے لیٹ ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

’نَامَ النِّسَائُ وَالصِّبیَانُ‘’’

یعنی عورتیں اور بچے سو گئے۔‘‘( صحیح البخاری،بَابُ فَضلِ العِشَائِ،رقم:۵۶۶، صحیح مسلم،بَابُ وَقْتِ الْعِشَاء ِ وَتَأْخِیرِہَ،رقم:۶۳۸)

اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: أَیِ الحَاضِرُونَ فِی المَسجِدِ (فتح الباری ۲/۴۸)یعنی وہ جو مسجد میں موجود تھے اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما  کی مسجد میں آمد و رفت کی متعدد احادیث میں مصرح (واضح) ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’مسند احمد‘‘وغیرہ۔

ایک اور صحیح روایت میں فرمانِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ میں بچے کا رونا سن کر نماز ہلکی کردیتا ہوں کہ کہیں یہ امر بچے کی والدہ پر گراں نہ گزرے۔

اسی طرح حدیث: مُرُوا اَولَادَکُم بِالصَّلٰوةِ اِذَا بَلَغُواسَبعًا‘(سنن أبی داؤد،بَابُ مَتَی یُؤمَرُ الغُلَامُ بِالصَّلَاةِ،رقم:۴۹۵)سے بھی مسجد میںبچوں کی آمد کا جواز مترشح ہے۔ دوسری طرف محدثین کرام نے چار، پانچ سال کے بچہ کا سماعِ حدیث بھی قابلِ اعتبار سمجھا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اسے عام مجالس میں آنے کی اجازت ہو، جن میں مسجد بھی شامل ہے۔ حدیث میں وارد ہے:

’اِنَّمَا بُنِیَتِ المَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَت لَهٗ‘صحیح مسلم،بَابُ النَّهیِ عَن نَشدِ الضَّالَّةِ فِی المَسجِدِ…الخ ،رقم:۵۶۹

یعنی مسجدیں جس کام کے لیے بنائی گئیں ہیں، وہی کام ان میںہونا چاہیے۔

زیرِ حدیث امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ مَعنَاهُ لِذِکرِ اللّٰهِ ، وَالصَّلٰوةِ، وَالعِلمِ، وَالمَذَاکَرَةِ فِی الخَیرِ وَ نَحوهَا  ‘

یعنی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مساجد اﷲ کی یاد، نماز ، تعلیم و تعلُّم اور امورِ خیر کے بارہ میں گفتگو کے لیے بناء ئی گئی ہیں۔‘‘

لہٰذا عام حالات میں کسی کو حق نہیں کہ بچوں کو مسجد میں آنے سے روکے۔ البتہ بچے اگر شریر قسم کے ہوں، جن سے احترام مسجد اور آداب مسجد مجروح ہوتے ہوں، تو بطورِ تأدیب ان کے خلاف مناسب کارروائی ہوسکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  مسجد میں بچوں کے کھیل کود پر درّے لگاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے: ’جَنِّبُوا مَسَاجِدَکُم صِبیَانَکُم‘(سنن ابن ماجه،بَابُ مَا یُکرَهُ فِی المَسَاجِدِ، رقم:۷۵۰، اسناده ضعیف فتح الباری ۱/۵۴۹)عنی ’’اپنی مسجدوں کو بچوں سے بچاؤ۔‘‘

 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے

:’ لِأَنَّهُم یَلعَبُونَ فِیهِ، وَ لَا یُنَاسِبُهُم ‘

’’کیونکہ وہ کھیل کود کرتے ہیں اور یہ ان کے مناسب نہیں۔‘‘

تاہم مُہذَّب اور مؤدَّب بچوں کو بلا روک ٹوک مسجدوں میں آنے کی اجازت ہے۔ لہو و لعب اور شوروغل کرنے والوں کا محاسبہ ایک لازمی امر ہے، تاکہ مسجد کی طہارت وپاکیزگی میں فرق نہ آنے پائے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب المساجد:صفحہ:206

محدث فتویٰ

تبصرے