سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(204) کیا غیر مسلموں کومسجد میں آنے کی دعوت دی جا سکتی ہے ؟

  • 24214
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 640

سوال

(204) کیا غیر مسلموں کومسجد میں آنے کی دعوت دی جا سکتی ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاغیر مسلموں کومسجد میں آنے کی دعوت دی جاسکتی ہے تاکہ وہ بعض اہم معاملات کے بارے میں مسلمانوں سے خطاب کریں یا اس لئے کہ اُنہیں مسلمانوں کی ضروریات سے آگاہ کیاجائے؟ اگر خطاب کرنے والی کوئی خاتون ہو تب کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیر مسلموں کو مسلمانوں کے اجتماعات میںدعوت دینے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے :

اگر اس میں مسلمانوں کا واضح فائدہ ہو، اس کے مقابلے میں کوئی اس سے بڑی خرابی نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، تاہم خرابیوں کو حسب ِاستطاعت کم کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ بالخصوص جب لیکچر دینے والی کوئی خاتون ہو، تو فتنہ کے اسباب کم کرنے میں اجتہاد کرنا چاہئے۔ نشستوں کو اس انداز سے ترتیب دیا جائے کہ ممکن حد تک اختلاط کم سے کم ہو۔

اس کی مثال یہ ہے کہ بعض علاقوں میں متعصب غیر مسلموں کی طرف سے مسلمان افراد پر تشدد کے واقعات کے بعدبعض افسر اور ذمہ دار افراد تشدد کے ان واقعات پر احتجاج کرنے اور مجرموں کی مذمت کرنے کے لئے، یامسلمانوں کے قانونی حقوق واضح کرنے کے لئے، اور زیادتی وغیرہ کے موقع پر دفاع کے طریقے بتانے کے لئے آتے ہیں یا کوئی ایسا دنیوی علم سکھانے کے لئے آتے ہیں جو مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہے، تو اس قسم کے معاملات میں تعاون کرنا چاہئے۔

اگر اس میں دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے فائدہ ہو، اور اس کے ساتھ کوئی اس سے بڑی خرابی نہ ہو، تو بھی اس میں حرج نہیں۔ جب کہ ایسے پروگرام منعقد کرانے والوں کی نیت شروع میں بھی نیک ہو اور بعد میں بھی ہمیشہ نیک رہے۔ جب کہ اس سلسلے کا اصل مقصد اللہ کی طرف بلانا، اور اسلام کو دوسرے مذاہب سے برتر ثابت کرنا ہو۔ اس کی مثال وہ مناظرے ہیں جو مسجدوں اور کلیساوں میں ہوتے ہیں تاکہ حق واضح ہو، اور حجت قائم ہو۔ اس مقصد کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے ہونے والی ملاقاتیں اور دوسری ملاقاتیں جن کا تعلق تبلیغ اور اس کے پروگراموں سے ہو، وہ سب اس میں شامل ہیں۔

ان فوائد کا اندازہ لگانا مسجد کے اہل حل و عقد کا کام ہے۔باقی افراد کو ان کاساتھ دینا چاہئے، اور انہیں بہتر مشوروں سے نوازنا چاہئے، کیونکہ ایسے معاملات میں اکثر غلط فہمیاں اور لغزشیں ہوجایا کرتی ہیں۔ ان سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے، جسے اللہ محفوظ رکھے۔

اگر ان اجتماعات میں مذکورہ بالا فوائد نہ ہوں، بلکہ ان کامقصد محض غیر مسلموں سے میل ملاپ بڑھانا، ان کااحترام کرنا، اور ان سے محبت کا اظہار کرنا ہو، جب کہ اس میں مسلمانوں کاکوئی واضح فائدہ نہ ہو، اور دعوت و تبلیغ کا بھی کوئی واضح فائدہ نہ ہو، تو یہ بنیادی طور پرممنوع ہیں۔ اس کی دلیل ان نصوص کاعموم ہے جو مومنوں سے محبت رکھنے کا حکم دیتی ہیں اور کافروں سے دلی دوستی کرنے، اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو ہم راز بنانے سے منع کرتی ہیں اور اس لئے بھی کہ مسجدوں کا احترام برقرار رکھنا واجب ہے۔ واللہ اعلم

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب المساجد:صفحہ:195

محدث فتویٰ

تبصرے