سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) کیا خون نجس ہوتا ہے اور کیا خون بہنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؟

  • 24168
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1255

سوال

(158) کیا خون نجس ہوتا ہے اور کیا خون بہنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ باجماع اہل علم خون نجس ہے۔ علامہ وحید الزمان ’’شرح ابن ماجہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شراب ، خون، مردار اگرچہ حرام ہیں لیکن ان کی نجاست ثابت نہیں ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم   زخموں سے خون نکلنے کی حالت میں بھی نماز پڑھا کرتے تھے۔ کیا امام نووی کے دعوی اجماع کی کوئی دلیل ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سے مراد ان کی غالباً دمِ مسفوح (ذبح کے وقت نکلنے والا خون) ہے۔ جس طرح کہ ’’سورۃ الانعام‘‘ میں ہے اور وہ خون جو گوشت کے ساتھ لگا ہوتا ہے یہ حرام نہیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:

اِتَّفَقَ العُلَمَاءُ عَلٰی اَنَّ الدَّمَ حَرَامٌ نَجَسٌ لَا یُوکَل وَ لَا یُنتَفَعُ بِهٖ ۔‘ تفسیر قرطبی:۲/۲۲۱

اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خون حرام اور نجس ہے۔ نہ اسے کھایا جائے، اور نہ اس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ اس سے مراد بھی دم مسفوح ہے۔

علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ   نے جن اشیاء کی نشاندہی کی ہے ان کی نجاست مختلف فیہ(اختلافی مسائل) مسائل میں سے ہے۔

مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مُردار نجس ہے، جب کہ امام مالک رحمہ اللہ   اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ   طہارت کے قائل ہیں۔ صاحب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ فرماتے ہیں کہ شراب کی بیع کی حرمت اور نجاست پر سب مسلمان متفق ہیں۔ البتہ شراب کی نجاست میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ اس طرح مُردار کے تمام اجزاء جن میں زندگی کی رَمق ہوتی ہے وہ بھی حرام ہیں لیکن خنزیر کے بالوں سے انتفاع حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ ابن القاسم رحمہ اللہ جواز کے قائل ہیں، جب کہ اصبغ فقیہ منع کا۔ اسی طرح دم سائل (بہنے والا خون) حنفیہ کے نزدیک نجس ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ   اس بات کے قائل نہیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیںکہ ہمیشہ سے مسلمان اپنے زخموں میں نمازیں پڑھتے رہے جیسے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کا خون بہہ رہا تھا انھوں نے اسی حالت میں نماز پڑھ لی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! صحیح بخاری:’’بَابُ مَن لَم یَرَ الوُضُوء ‘‘ اور فتح الباری(۱/۲۸۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:169

محدث فتویٰ

تبصرے