سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) شلوار یا پاجامہ لٹکانے پر دوبارہ وضو کرنا

  • 24165
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 569

سوال

(155) شلوار یا پاجامہ لٹکانے پر دوبارہ وضو کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امیر جماعت المسلمین نے کتاب صلوٰۃ المسلمین (ص:۱۰۰) پر وہ اُمور جن کے وقوع کے بعد دوبارہ وضوکرنا چاہیے‘‘ کے تحت ’’شلوار یا پاجامہ لٹکانا‘‘ لکھا ہے، حوالہ دیا ہے:

’ بَینَمَا رَجُلٌ یُصَلِّی مُسبِلًا إِزَارَهٗ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ اِذهَب فَتَوَضَّأ۔‘ ابوداؤد۔سنده صحیح، مرعاة:۳/۲۰۹

الحمد ﷲ خود تو نماز میں اور نماز کے باہر پاجامہ ٹخنوں سے اوپر رکھنے کا اہتمام کرتا ہوں مگر بعض دفعہ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں جس کے ٹخنے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا میں احتیاطاً یا وجوباً نماز دوبارہ پڑھوں یانہیں؟ اِسبال کی بھی وضاحت فرمائیں کہ پورے قدم ڈھکے ہوں، یا صرف ٹخنے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ چادر شلوار اور قمیص وغیرہ کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا شدید ترین جرائم میں سے ہے۔ تاہم اس سے نماز قطع (ختم) نہیں ہوتی۔ فقہاء و محدثینِ عظام نے اس کو نواقضِ وضومیں شمار نہیں کیا۔ اس بارے میں وارد مشارٌ الیہ حدیث ضعیف ہے۔ حافظ منذری فرماتے ہیں:

’فِی إِسنَادِهِ أَبُو جَعفَرٍ، وَهُوَ رَجُلٌ مِن أَهلِ المَدِینَةِ لَا یُعرَفُ اسمُهُ ‘ مختصر سنن أبی داؤد:۱/۳۲۴

یعنی ’’اس حدیث کی سند میں اہل مدینہ کا ایک آدمی ہے جس کا نام غیر معروف ہے۔‘‘

اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:

’ وَ فِی إِسنَادِهِ أَبُو جَعفَرٍ، وَهُوَ رَجُلٌ مِن أَهلِ المَدِینَةِ لَا یُعرَفُ اسمُهُ ‘ نیل الأوطار :۳/۱۱۸

اور علامہ البانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

 ’’اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔اس میں راوی ابو جعفر انصاری ہے۔اس سے بیان کرنے والا یحییٰ بن ابی کثیر ہے اور ابو جعفر انصاری مدنی مؤذن ہے اور وہ مجہول ہے، جس طرح کہ ابن قطان نے کہا ہے اور ’’تقریب‘‘ میں ہے۔ :’’اس کی حدیث کمزور ہے۔‘‘

 علامہ موصوف فرماتے ہیں:میں کہتا ہوں: پس جس نے حدیث ہذا کو صحیح قرار دیا ہے اسے وہم ہوا ہے۔ معلوم نہیں۔ علامہ موصوف نے ’’لین الحدیث‘‘ کی نسبت تقریب کی طرف کیسے کردی جب کہ اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ لفظ ’’مقبول‘‘ ہے جس سے حافظ صاحب کی مرادیہ ہوتی ہے کہ یہ راوی متابعت کی صورت میں مقبول ہے۔( ملاحظہ ہو :مقدمۃ التقریب )جبکہ محلِ بحث مقام پر متابعت مفقود ہے لہٰذا ابو جعفر راوی ضعیف ٹھہرا۔  اس نظر یہ کے برعکس حدیث ہذا کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ رَوَاهُ أَبُودَاؤدَ بِاِسنَادٍ صَحِیحٍ عَلٰی شَرطِ مُسلِمٍ ۔‘ ریاض الصالحین، باب صفة طول القمیص

یعنی ’’اس حدیث کو ابوداود نے بسند صحیح ذکر کیا ہے جو مسلم کی شرط پر ہے۔‘‘

صاحبِ مرعاۃنے بھی اس عبارت کو نقل کیا ہے، جس کی بناء پر مصنف کتاب صلوٰۃ المسلمین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ۔لیکن امام نووی رحمہ اللہ   کا یہ دعویٰ بلا استناد ہے، جو قابلِ اعتماد نہیں ۔جب کہ ابو جعفر راوی کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے جس پر ا س حدیث کا دارو مدار ہے۔

اسبال سے مقصود یہاں یہ ہے کہ ٹخنے ڈھکے ہوں ۔مسئلہ ہذا کے بارے میں میرا ایک تفصیلی فتویٰ بھی الاعتصام مؤرخہ ۲۳ شعبان ۱۴۱۲ھ میں شائع ہو چکا ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:167

محدث فتویٰ

تبصرے