سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نماز نہیں ہوتی؟

  • 24164
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2067

سوال

(154) شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نماز نہیں ہوتی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس حدیث کے بارے میں کہ اگر شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو وضوٹوٹ جاتا ہے اور نماز نہیں ہوتی؟

بحوالہ:

’عَن أَبِی هُرَیرَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ قَالَ: رَجُلٌ یُّصَلِّی مُسبِلًا إِزَارَهٗ۔ إِذ قَالَ لَهٗ رَسُولُ اللّٰهِﷺ  اِذهَب فَتَوَضًّأ‘ (أبي داؤد :۱/۱۰۰، کتاب الصلوٰة باب الإسبال)

(نوٹ) اگر امام کی بھی شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو کیا مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چادر، شلوار اور قمیص وغیرہ کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بلاشبہ شدید ترین جرائم میں سے ہے۔ تاہم اس سے نماز قطع نہیں ہوتی۔ فقہائے اور محدثین عظام نے کتبِ حدیث کے تراجم و ابواب میں اس کو نواقضِ وضوسے شمار نہیں کیا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مرض الموت میں ایک نوجوان کو تہ بند لٹکائے دیکھا تو واپس بلا کر فرمایا: اسے اوپر کر! فَإِنَّهٗ اَنْقٰی لِثَوبِكَ وَاَتقٰی لِرَبِّكَ۔‘ صحیح البخاری، کتاب المناقب،بَابُ قِصَّةِ البَیْعَةِ، وَالِاتِّفَاقِ …الخ،رقم:۳۷۰۰ مع فتح الباری‘ ۷/۶۰

 ’’اس میں کپڑے کی خوب طہارت وصفائی ہے اور رب کے ہاں تقوٰی اور پرہیز گاری کا باعث ہے۔‘‘

اسی طرح بعض صحیح روایات میں ہے :’ مَا اَسفَلَ مِنَ الکَعبَینِ فَهُوَ فِی النَّارِ۔‘ صحیح البخاری،بَابُ مَا أَسْفَلَ مِنَ الکَعْبَیْنِ فَهُوَ فِی النَّارِ،رقم:۵۷۸۷

’’کپڑے کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے لٹک رہا ہے وہ آگ میں ہے ۔‘‘

اس بارے میں جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر ڈھلکنے کا ذکر کیا تو فرمایا :

’ اِنَّكَ لَستَ مِمَّن یَفعَلُهٗ خُیَلَاء.‘ (بخاری بحواله مشکوٰة ۔کتاب اللباس:۲/۳۷۶) صحیح البخاری،بَابُ مَنْ جَرَّ إِزَارَہُ مِنْ غَیْرِ خُیَلاَء َ،رقم:۵۷۸۴، سنن النسائی،إِسْبَالُ الْإِزَارِ، رقم:۵۳۳۵

یعنی ’’تو ان لوگوں میں سے نہیں جو فعل ہذا کو تکبر سے کرتے ہیں ۔‘‘

رسول اکرم ﷺاس وقت فرماسکتے تھے کہ اے ابو بکر  رضی اللہ عنہ جب کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹک رہا ہو تو نماز نہیں ہوتی،وضوٹوٹ جاتا ہے ۔لہٰذا تیرے لئے بھی کپڑا اُوپر رکھنا ضروری ہے ۔اس کے بجائے فرمایا:

’ اِنَّكَ لَستَ مِمَّن یَفعَلُهٗ خُیَلَاءَ‘

اس سے معلوم ہوا کپڑے کا ٹخنے سے نیچے ہونا ناقضِ وضونہیں ۔اصولِ فقہ کا قاعدہ ہے:

’ تَأخِیرُ البَیَانِ عَن وَقتِ الحَاجَةِ لَا یَجُوز ‘

اور ’’طبرانی‘‘ میں روایت ہے رسول اﷲﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس نے کپڑا نیچے لٹکایا ہوا تھا، تو آپﷺ نے اس کا کپڑا لپیٹ دیا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:۳۵۳، عون المعبود:۱/۲۴۳)  اور سوال میں مذکور حدیث ضعیف ہے ۔اس کی سند میں ایک راوی ابو جعفر ہے۔ اس کے بارے میں حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ فِی إِسنَادِهٖ أَبُو جَعفَر، وَ هُوَ رَجلٌ مِن أَهلِ المَدِینَةِ لَا یُعرَفُ اِسمُهٗ ‘مختصر سنن أبی داؤد :ا/۳۲۴

یعنی ’’اس حدیث کی سند میں اہلِ مدینہ سے ایک آدمی ابوجعفر ہے اس کانام غیر معروف ہے۔‘‘

اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ وَ فِی إِسنَادِهٖ أَبُو جَعفَرٍ، وَهُوَ رَجُلٌ مِن أَهلِ المَدِینَةِ لَایعرف اسمه‘نیل الأوطار۳/۱۱۸

اور علّامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’وَ إِسنَادُهٗ ضَعِیفٌ. فِیهِ اَبُو جَعفَر، وَ عَنهُ یَحیٰی بنُ اَبِی کَثِیرٍ، وَهُوَ الأَنصَارِیُّ، اَلمَدَنِیُّ، المُؤَذِّن، وَهُوَ مَجهُولٌ ،کَمَا قَالَ ابنُ القَطَّان: وَفِی’التَّقرِیب‘ إِنَّهٗ لَیِّنُ الحَدِیثِ۔ قُلتُ: فَمَن صَحَّحَ إِسنَادَ هٰذَا الحَدِیث فَقَد وَهِمَ‘مشکوٰة،ج:۱، ص:۲۳۸

یعنی ’’اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اس میں راوی ابوجعفر ہے۔ اس سے بیان کرنے والا یحییٰ بن أبی کثیر ہے۔ أبوجعفر انصاری، مدنی، مؤذن ہے، اور وہ مجہول ہے، جس طرح کہ ابن القطان نے کہا ہے۔ اور ’’تقریب‘‘ میں ہے کہ اس کی حدیث کمزور ہے۔علامہ موصوف فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں پس جس نے حدیث ہذا کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اسے وہم ہوا ہے۔‘‘

واضح رہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   نے ابو جعفر کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یوں ہیں:

’ أبُو جَعفَرٍ، المُؤَذِّنُ ‘ الأَنصَارِیُّ، المَدَنِیُّ، مَقبُولٌ، مِنَ الثَّالِثَةِ وَ مَن زَعَمَ أَنَّهٗ مُحَمَّدُ بنُ عَلِیِّ بنِ الحُسَینِ ، فَقَد وَهِمَ۔‘

معلوم نہیں علامہ موصوف نے ’’لین الحدیث‘‘ کی نسبت تقریب کی طرف کیسے کردی ہے جب کہ اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں، بلکہ لفظ مقبول ہے۔ جس سے حافظ صاحب کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ راوی متابعت کی صورت میں مقبول ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’مقدمۃ التقریب‘‘ جب کہ محل بحث مقام پر متابعت مفقود ہے۔ لہٰذا ’’ابوجعفر‘‘ راوی ضعیف ٹھہرا۔ اس نظریہ کے برخلاف اس حدیث کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:

’ رَوَاهُ أَبُو دَاؤدُ بِإِسنَادٍ صَحِیحٍ عَلٰی شَرطِ مُسلِمٍ‘ریاض الصالحین،باب صفة طول القمیص والکم والأزار

 اس حدیث کو ابوداؤد نے بسند صحیح ذکر کیا ہے جو مسلم کی شرط پر ہے۔

لیکن امام نووی رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ محلِ نظر اور بلا دلیل ہے، جب کہ ابوجعفر راوی کی حقیقت منکشف ہو چکی، جس پر اس حدیث کا دارومدار ہے۔

جب دلائل سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ چادر وغیرہ کا ٹخنوں سے لٹکنا ناقض وضو نہیں ہے اور نماز ہو جاتی ہے تو امام کی چادر وغیرہ ٹخنوں سے نیچے آنے کی بناء پر مقتدیوں کی نماز میں فرق نہیں آئے گا۔ البتہ امام صاحب کو بطریقِ احسن سمجھانا چاہیے تاکہ آئندہ فعلِ شنیع (برے فعل) کے ارتکاب سے باز رہ کر اپنے کو  ’اِجعَلُوا أئِمَّتکُم خِیَارَکُم‘(سنن الدارقطنی،بَابُ تَخفِیفِ القِرَاءَةِ لِحَاجَةٍ،رقم:۱۸۸۱) کا صحیح نمونہ ثابت کر سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:165

محدث فتویٰ

تبصرے