السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدثنا احمد بن محمد بن ایوب ثنا إبراهیم بن سعد عن محمّد بن إسحٰق عن محمّد بن جعفر بن الزبیر عن عروة بن الزبیر عن امراة من بنی النجار قالت کان بیتی من اطول بیت کان حول المسجد فکان بلال یؤذن علیه الفجرالخ…(سنن أبوداؤد) سنن أبی داؤد:کتاب الصلوٰة،باب الاذان فوق المنارة،رقم:۵۱۹
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف سنن ابوداؤد میں نقل نہیں کیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے،واللہ اعلم۔ البتہ شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری اپنی کتاب احکام و مسائل جلداوّل میں اذان واِقامت کے بیان میں اذان سے قبل الصلوٰۃ والسلام کہنا کے بیان میں مذکورہ حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
اوّلاً:تو اس لئے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے اور اس کمزوری کی دو وجہیں ہیں:
۱۔ اس کی سند میں احمد بن محمد بن ایوب نامی ایک راوی ہیں جن کے متعلق یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: لیس من اصحاب الحدیث وإنما کان ورّاقا اور ابواحمد حاکم فرماتے ہیں: لیس بالقوی عندہم نیز یحییٰ بن معین کہتے ہیں: ہوکذاب
۲۔ اس کی سند میں محمد بن اسحق ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’ إمام المغازی صدوق یدلس ورمی بالتشیع والقدر ‘
اُصولِ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ مدلس راوی جب تک اپنے شیخ سے سماع کی تصریح نہ کرے، تب تک اس کی روایت قابل قبول نہیں اور مندرجہ بالا روایت محمد بن اسحق نے بصیغہ عن بیان کی ہے، اپنے سماع کی تصریح نہیں فرمائی۔(محمد شفیق کمبوہ ،والٹن لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشار الیہ حدیث موصوف کی صحیح ابوداؤد میں ہے، انہوں نے کافی وافی بحث سے اس کا حسن ہونا ثابت کیا ہے۔ علامہ نورپوری حفظہ اللہ کا حدیث ہذا کو دووجوہات سے ضعیف قرار دینامحل نظر ہے۔ اوّلاً راوی احمد بن محمدبن ایوب کے بارے میں بعض اصحاب ِفن سے صرف جرح نقل کی ہے جبکہ دیانت و امانت اور انصاف کا تقاضا تھا کہ معدلین کی تعدیل بھی ذکر کرتے پھر جرح و تعدیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق صحت و ضعف کا حکم لگاتے۔افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ عثمان دارمی کا بیان ہے کہ امام احمد اور امام علی بن مدینی اس کے متعلق اچھی رائے رکھتے تھے: یحسنان القول فیہ۔ ایسے ہی عبداللہ بن احمداپنے والد سے بیان کرتے ہیں: ما اعلم احدا یدفعہ بحجتہ مجھے علم نہیں کوئی بدلائل اس میں جرح و قدح کرسکتا ہو۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے جرح کے باوجود اس کو صالح الحدیث قرار دیا ہے۔ اور ابن حبان نے اس کا تذکرہ ثقات میں کیا ہے۔ابراہیم الحربی نے کہا:وراق ثقہ ہے، جھوٹ کی تلقین کی صورت میں انکاری ہوتا،یعنی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے:لاباس بہ (تہذیب التہذیب :۶۴/۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ چوتھے درجے کا راوی ہے جو بمطابق اصطلاحِ محدثین قابل حجت ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حافظ موصوف کا رجحان بھی اس کی توثیق کی طرف ہے۔ ان شواہد کی بنا پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ثقات کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔
ثانیاً:محمد بن اسحق کی تدلیس کا جواب یہ ہے کہ سیرت ابن ہشام میں ابن اسحق کی تحدیث کی تصریح موجود ہے، اس طرح یہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔ الفاظ یوں ہیں: قال ابن اسحٰق حدثنی محمد بن جعفر بن الزبیر
ان وجوہات کی بنا پر حافظ ابن حجر، ابن دقیق العید اور شیخ البانیs نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور یہی بات راجح ہے۔جرح و تعدیل کے سلسلہ میں توضیح الافکار کے حواشی پر علامہ محمد محی الدین عبدالحمید رقم طراز ہیں:
واختار شیخ الاسلام تفصیلاً حسنا،فإن کان من جرح مجملًا قد وثقه احد من ائمة هذا الشان لم یقبل الجرح فیه من احد کائنا من کان إلا مفسرًا، لانه قد ثبتتْ له رتبة الثقة فلا یزحزح عنها إلا بامر جلی فإن ائمة هذا الشان لا یوثقون إلامن اعتبروا حاله فی دینه ثم فی حدیثه نقدوه کما ینبغی،وهم ایقظ الناس، فلا ینقض حکم احدهم إلا بامر صریح وإن خلا عن التعدیل قبل الجرح فیه غیر مفسر إذا صدر من عارف، لانه إذا لم یعدل فهو فی حیز المجهول وإعمال قول المجرح فیه اولیٰ من إهماله. انتهی کلامه (۱۳۵/۲)
(کس طرح کی جرح قبول ہو گی؟اس کے بارے میں) شیخ الاسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیل کے پہلو کو اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح مجمل ہو،لیکن فن حدیث کے کسی امام نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے تو اس صورت میں خواہ کوئی بھی ہو،اس راوی پر اس کی مجمل جرح کو قبول نہیں کیاجائے گا،بلکہ اس صورت میں جرح مفسر ہی قابل قبول ہو گی،کیونکہ اس کی ثقاہت ثابت ہو چکی ہے اور کسی واضح امر کے بغیر اس کی ثقاہت کو زائل نہیں کیاجا سکتا ،کیونکہ ائمہ فن نہایت بیدار مغز لوگ تھے۔وہ کسی شخص کو ثقہ قرار دینے سے پہلے اس کی دینی حالت کاجائزہ لیتے، اس کی حدیث کو اچھی طرح پرکھتے تھے ۔تو اگر ان میں سے کسی نے پوری تحقیق اور چھان بین کے بعد کسی شخص کے ثقہ ہونے کا فیصلہ دیا ہے تو کسی واضح دلیل کے ساتھ ہی اس فیصلہ کو ردّ کیا جا سکتا ہے ،البتہ اگر کسی نے اس کی تعدیل نہیں کی تو تب غیر مفسر جرح بھی قبول کر لی جائے گی، بشرطیکہ وہ کسی ماہر فن کی طرف سے ہو کیونکہ جب کسی نے بھی اس کی تعدیل وتوثیق نہیں کی تو گویا وہ مجہول ہے اور کسی مجہول شخص پر جرح کرنیوالے کی بات کو قابل عمل قرار دینا اسے متروک اور مہمل قرار دینے سے زیادہ بہتر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب