سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) باریک جرابوں پر مسح کرنا

  • 24140
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 851

سوال

(130) باریک جرابوں پر مسح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے اہلِ حدیث کے نزدیک جرابوں پر مسح جائز ہے۔ اس لیے یہ حضرات جراب پر مسح کر کے نماز پڑھا دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امام صاحب نے باریک جراب پر ،جسے اتارنا بھی کچھ مشکل نہیں مسح کیا اور نماز پڑھا دی تو کیا مقتدی کی نماز ہو جائے گی۔ نیز یہ کہ جراب پر اگر مسح ہوجاتا ہے تو کیا تمام قسم کی جرابیں جن میں جالی والی جرابیں بھی ہیں، کا حکم ایک جیسا ہے ۔ اس کا جواب دیں۔ دلیل بھی درج کر دیں اور حوالہ جات بھی تحریر فرما دیں۔ شکریہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لغت کی کتاب القاموس میں ہے: اَلجَورَبُ لَفَافَۃُ الرِّجلِ۔ ’’جراب پائوں کے غلاف کا نام ہے‘‘

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

’ تَوَضَّائَ النَّبِیُّﷺ، وَ مَسَحَ عَلَی الجَورَبَینِ وَالنَّعلَینِ ۔ قَالَ أَبُو عِیسٰی: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔‘ سنن أبی داؤد،بَابُ الْمَسْحِ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ، رقم:۱۵۹، سنن الترمذی،بَابٌ فِی الْمَسْحِ عَلَی الجَوْرَبَیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ،رقم:۹۹

’’نبی ﷺنے وضوکیا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘

امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی حدیث ہذا کو صحیح قرار دیاہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ وَ ھُوَ قَولُ غَیرِ وَاحِدٍ مِن أَھلِ العِلمِ۔ وَ بِہٖ یَقُولُ سُفیَانُ الثَّورِیُّ، وَ ابنُ المُبَارَکِ وَالشَّافِعِیُّ ، وَأَحمَدُ ، وَ اِسحَاقُ (رحمھم اللہ اجمعین)، قَالُوا : یُمسَحُ عَلَی الجَورَبَینِ ، وَ اِن لَم تَکُن نَعلَینِ اِذَا کَانَا ثَخِینَینِ۔‘

یعنی ’’کئی ایک اہل علم کا قول یہی ہے ۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق سب اسی بات کے قائل ہیں کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ جب وہ موٹی ہوں، خواہ جوتے نہ بھی ہوں۔‘‘

نیز ابو مقاتل سمرقندی رحمہ اللہ   کا بیان ہے کہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ   کے مرض الموت میں ان کے پاس گیا، انہوں نے پانی منگو اکر وضوکیا تو جرابوں پر مسح کیا، پھر فرمایا: آج میں نے ایسا کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا۔ میں نے جرابوں پر مسح کیا حالانکہ وہ جوتے کی شکل بھی نہیں۔ بحوالہ صحیح ترمذی (۱؍۷۴)

معجم طبرانی میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

’کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ یَمسَحُ عَلَی الخُفَّینِ وَالجَورَبَینِ۔‘ المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:۱۰۶۳

’’رسول اللہ ﷺموزوں اور جرابوں پر مسح کرتے تھے۔‘‘

درایہ میں ہے کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔ نیز حضرت علی، ابن مسعود، برائ، انس، ابو امامہ، سہل بن سعد، عمرو بن حدیث ، عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم  جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو! مختصر سنن ابی دائود (۱؍ ۱۲۱)

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’تہذیب السنن‘‘ (۱؍۱۲۲) میں مسئلہ ہذا پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ فرماتے ہیں:

’ وَالمَسحُ عَلَیھِمَا قَولُ أَکثَرِ أَھلِ العِلمِ۔‘

’’اکثر اہل علم کا قول یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔‘‘

امام محمد اور قاضی ابو یوسف(;) فرماتے ہیں: جب جرابیں موٹی ہوں، باریک نہ ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ (قدوری باب المسح علی الخفین)

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ بظاہر ہر قسم کی جراب پر مسح کا جواز ہے، موٹی ہو یا باریک کیونکہ لغوی تعریف تمام قسم کی جرابوں پر صادق آتی ہے اور اکثر سلف نے بھی تفریق نہیں کی۔ مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ جرابیں پہنے ہوئے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا بلا تردُّد درست ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:151

محدث فتویٰ

تبصرے