السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وضوکے بعد کی دعاء یعنی ’ اَللّٰهُمَّ اجعَلنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَ اجعَلنِی مِنَ المُتَطَهِّرِینَ‘سنن الترمذی،بَابُ مَا یُقَالُ بَعْدَ الوُضُوء ِ،رقم:۵۵
اس حدیث کی اسنادی حیثیت درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور دعاء جامع ترمذی میں وارد ہے۔ اس کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ فِی إِسنَادِهٖ إِضطِرَابٌ، وَ لَا یَصِحُّ فِیهِ شَیئٌ کَبِیرٌ۔‘
جرح ہذا کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ لٰکِن رِوَایَةَ مُسلِمٍ سَالِمَةٌ مِن هٰذَا الاِعتِرَاضِ۔ وَالزِّیَادَةُ الَّتِی عِندَهٗ رَوَاهَا البَزَّارُ، وَالطِّبرَانِیُّ فِی ’الأَوسَطِ‘ مِن طَریقِ ثَوبَانَ ۔‘
لیکن صحیح مسلم کی روایت اضطراب کے اعتراض سے سلامت ہے اور وہ زیادتی جو ترمذی میں ہے اس کو بزار اور طبرانی نے ’’أوسط‘‘ میں ثوبان کے طریق سے بیان کیا ہے۔‘‘
جس کے الفاظ یوں ہیں:
’ اَشهَدُ أَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه، واَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللّٰهِ۔ اللّٰهُمَّ اجعَلنِی مِنَ التَّوَّابِینَ وَ اجعَلنِی مِنَ المُتَطَهِّرِینَ۔‘ التلخیص،جز:۱،ص:۱۰۱
بظاہر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ترمذی رحمہ اللہ کی جرح کو تسلیم کیا ہے اور دیگر طُرُق کی بناء پر اس کو قابلِ عمل سمجھا ہے، لیکن محقق العصر شیخنا ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے امام ترمذی کی جرح کو ہی ہدفِ تنقید بنایا ہے۔وہ فرماتے ہیں:
’ وَ أَعلَّهٗ التِرمَذِیُّ بِالاِضطِرَابِ، وَ لَیسَ بِشَیئٍ، فَإِنَّهٗ إِضطِرَابٌ مَرجُوحٌ۔‘ إرواء الغلیل:۱/۱۳۵
یعنی امام ترمذی نے اس حدیث کو اضطراب کی بناء پر معلول (علت والی) قرار دیا ہے، لیکن یہ قابلِ توجہ شئی نہیں کیونکہ یہ اضطراب مرجوح ہے۔
پھر دیگر شواہد کی بناء پر ’’الإروائ‘‘ میں اس کو بِلا تردُّد قابلِ عمل تسلیم کیا گیا ہے۔ اور صحیح سنن ترمذی میں علامہ البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ رقم (۴۸۔۵۵) یہی بات راجح ہے۔ ان وجوہ کی بناء پر جن کی علامہ موصوف نے نشاندہی کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب