السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لغت میں غسل سے مراد پانی ڈالنا اور مَلنا ہے (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ للجزیری)کیا نبی کریم سے وضویا غسل میں ملنا ثابت ہے؟ اگر غسل یا وضومیں ہاتھ سے ملے بغیر پانی تمام اعضاء تک پہنچ جائے تو کیا وضواور غسل درست ہوجائیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضواور غسلِ جنابت میں جملہ اعضا کو دھونے کی تاکید وارد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’خرابی ہے واسطہ (خشک) ایڑھیوں کے آگ سے ، خبردار پورا کرو وضوئ۔‘‘ صحیح مسلم، بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ بِکَمَالِہِمَا،رقم:۲۴۱
نیز فرمایا : ’مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعْرَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ یُصِبْهَا الْمَاء ُ، فُعِلَ بِهَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ‘سنن الدارمی،بَابُ مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعْرَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ،رقم:۷۷۸،سنن أبی داؤد،رقم:۲۴۹،سنن ابن ماجة،رقم:۵۹۹
’’جس نے غسلِ جنابت سے بال برابر جگہ دھوئے بغیر چھوڑ دی (یعنی بال برابر بھی جگہ خشک رہ گئی) تو اس کو ایسا اور ایسا عذاب کیا جائے گا۔‘‘
اگر مَلے بغیر بھی اعضاء تَر ہو جائیں اور کوئی جگہ خشک نہ رہے پھر بھی درست ہے۔(فتح الباری :۱؍ ۳۵۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب