سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) گردن کا مسح

  • 24110
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1082

سوال

(100) گردن کا مسح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گردن کا مسح جو لوگ وضومیں کرتے ہیں… کہاں سے دلیل لاتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضومیں گردن کے مسح کے بارے میں نبی اکرمﷺ سے قطعاً قابلِ اعتماد و استناد طریق سے کوئی شے ثابت نہیں۔ علامہ ابن ہمام حنفی نے اس سلسلہ میں وارد بعض روایات کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن وہ سخت ضعیف اور ناقابلِ حجت ہیں۔(فتح القدیر:۱/۱۶۔۱۷) پھر حوالہ مذکور کے (ص:۲۳)پر ذکر کرتے ہیں:

’ وَ قِیلَ: مَسحُ الرَّقَبَةِ أَیضًا بِدعَةٌ ‘

یعنی ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح گلے کا مسح بدعت ہے اسی طرح گردن کا مسح بھی بدعت ہے۔‘‘

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:’’گردن کے مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث وارد نہیں۔‘‘ (زاد المعاد:۱/۱۹۵) مسئلہ ہذا کے بارے میں ایک روایت سنن ابوداؤد (رقم حدیث:۱۳۲) میں ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:

’ قَالَ رَأَیتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ یَمسَحُ رَأسَهٗ مَرَّةً وَاحِدَةً، حَتّٰی بَلَغَ القَذَالَ، وَهُوَ أَوَّلُ القَفَا۔ وَ قَالَ مُسَدَّدٌ: مَسَحَ رَأسَهٗ مِن مُقَدَّمِهٖ إِلٰی مُؤَخَّرِهٖ، حَتّٰی خَرَجَ یَدَیهِ مِن تَحتَ أُذُنَیهِ ‘  سنن ابی داؤد، بَابُ صِفَةِ وُضُوء ِ النَّبِیِّ ﷺ ،رقم:۱۳۲

یعنی میں نے رسول اﷲﷺ کو ایک دفعہ سَر کا مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ حتی کہ آپ گدی کے ابتدائی حصہ تک پہنچ گئے۔ اور مسدد نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ آپ نے سَر کے ابتدائی حصہ سے لے کر اخیر تک سَر کا مسح کیا حتی کہ دونوں ہاتھوں کو دونوں کانوں کے نیچے سے نکالا۔

 یہ روایت السنن الکبری للبیہقی(۱/۶۰) میں بھی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔ (المجموع:۱/۵۰۰) اس کی سند میں لیث بن سلیم قرشی کوفی کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: ’’ اس کی حدیث میں اضطراب ہے‘‘ اور ابن حبان رحمہ اللہ   نے کہا :’’یہ سندوں کا قلب (سندوں کو الٹ پلٹ) کردیتا ہے۔ مراسیل کا رفع (مرسل روایات کو مرفوع)کرجاتا تھا ، اور ثقات کی طرف وہ احادیث منسوب کرتا تھا جو ان کی نہ ہوتی تھیں۔ یحییٰ قطان، ابن محمدی، ابن معین اور احمد نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔

 اور نووی رحمہ اللہ   نے ’’تہذیب الأسماء‘‘ میں کہا ہے: ’إِتَّفَقَ العُلُمَاءُ عَلٰی ضَعفِهٖ‘ یعنی تمام علماء کا اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ نیز امام نووی رحمہ اللہ   نے کہا ہے کہ اس میں راوی طلحہ کے باپ مصرّف اور دادا عمرو بن کعب بھی غیر معروف ہیں۔ ابوداؤد نے کہا: میں نے احمد سے سنا وہ فرماتے تھے: لوگوں نے کہا ابن عیینہ اس حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’أیش طلحۃ عن أبیہ عن جدہ‘ یعنی وہ حدیث جس کو طلحہ نے ’’عن أبیہ عن جدہ‘‘ بیان کیا ہے قابلِ اعتماد شیٔ نہیں۔

صاحب ’’العون‘‘ فرماتے ہیں:’’یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود گردن کے مسح کے استحباب کی دلیل نہیں بنتی، کیونکہ اس حدیث میں تو صرف یہ ہے کہ آپ شروع سے لے کر سَر کے اخیر تک یا گردن کے اخیر تک ’’عَلٰی اِختلاف الروایات‘‘ مسح کرتے تھے۔ اس بارے میں توکلام ہی نہیں۔ اصلی زیرِ بحث مسئلہ تو گردن کا مروّجہ مسح ہے، جو گردن پر اُلٹی انگلیوں سے سَر کے مسح کے بعد لوگ کرتے ہیں۔ گردن کے مسح کی یہ کیفیت کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میںثابت نہیں،بلکہ وہ تمام روایات جو گردن کے مسح کے بارے میںوارد ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔ جس طرح کہ بہت سارے اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے۔ان کو قابلِ حجت سمجھنا قطعاً درست نہیں۔(۱/۴۹۔۵۰)

ابن الہمام رحمہ اللہ   نے وائل بن حجر رحمہ اللہ   سے بحوالہ ترمذی ایک روایت نقل کی ہے جس میں گردن کے مسح کی صراحت موجود ہے۔ بسیار (بہت زیادہ) تلاش کے باوجود مجھے یہ روایت سنن ترمذی میں مل نہ سکی۔ میں نے سمجھا کہ فقیہ موصوف سے نسبت میں غلطی ہوئی ہے ۔ بعد میں جب ’’عون المعبود‘‘ میں دیکھا تو انھوں نے واقعتا ان کے وہم کی صراحت کی ہے۔ فرماتے ہیں:

’ فَهُوَ وَهمٌ مِنهُ لِأَنَّ الحَدِیثَ لَیسَ لَهٗ وُجُودٌ فِی التِّرمِذِیِ ۔ (۱/۵۰)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   نے بھی اس بارے میں وارد اکثر روایات پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیاہے۔ ملاحظہ ہو! التلخیص (۱/۴۳۳)

گردن کے مسح کے بارے میں ایک اور روایت بھی مشہور ہے: مَسحُ الرَّقبَةِ أَمَانٌ مِنَ الغُلِّ‘‘ یعنی گردن کا مسح کرنے والا روزِ جزاء طوق سے محفوظ رہے گا۔ امام نووی رحمہ اللہ   نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ ’’المجموع شرح المھذب‘‘(۱/۴۶۵) اور حافظ عراقی نے بھی اس کو ’’تخریج الإحیائ‘‘(۱/۱۹۵) میںضعیف قرار دیا ہے۔ قدرے تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ’’سلسلۃ الأحادیث  الضعیفۃ للالبانی‘‘ (۱/۸۴۔۸۵)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:134

محدث فتویٰ

تبصرے