السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جن کے سَر پر پگڑی ہو ، ان کے لیے مسح کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضومیں پگڑی پر مسح کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے چنانچہ صاحب ’’العون‘‘ فرماتے ہیں:
’ أَحَادِیثُ المَسحِ عَلَی العِمَامَة، أَخرَجَهُ البُخَارِیُّ، وَ مُسلِمٌ ، وَالتَّرمِذِیُّ، وَأَحمَدُ، وَالنَّسَائِیُّ، وَابنُ مَاجَةَ، وَ غَیرُ وَاحِدٍ مِن الأَئِمَّةَِ مِن طُرُقٍ قَوِیَّةٍ مُتَّصِلَةِ الأَسَانِیدِ، وَ ذَهَبَ إِلَیهِ جَمَاعَةٌ مِّنَ السَّلفِ ، کَمَا عَرَفتَ۔ وَ قَد ثَبَتَ عَنِ النَّبِیِّﷺ مَوجُودٌ فِی کُتُبِ الأَئِمَّةِ الصِّحَاحِ وَالنَّبِیُّ ﷺ یُبَیِّنُ مِنَ اللّٰهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی فَقَط۔ الاِجزَاءَ عَلٰی بَعضِ مَا وَرَدَ لِغَیرِ مُوجِبٍ، لَیسَ مِن دَابِ المُنصِفِینَ، بَلِ الحَقُ جَوَازٌ عَلَی العِمَامَةِ فَقَط ۔‘ (۱/۵۶)
اس کا ماحصل یہ ہے کہ پگڑی پر مسح کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مسح کی تین صورتیں ہیں۔ صرف سَر پریا صرف پگڑی پر یا سَر اور پگڑی دونوں پر مسح کرنا۔ یہ تمام صورتیں رسول اﷲﷺ سے ثابت ہیں۔ اہلِ انصاف کی عادات سے بالا تر ہے، کہ بعض صورتوں کو لے لیا جائے اور بعض کو ترک کردیا جائے، بلکہ حق بات یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب