سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) عورت کا لوہے کی چیز بلیڈ یا استرا زیرِ ناف بالوں کے لیے استعمال کرنا

  • 24075
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5453

سوال

(65) عورت کا لوہے کی چیز بلیڈ یا استرا زیرِ ناف بالوں کے لیے استعمال کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت لوہے کی چیز بلیڈ یا استرا زیرِ ناف بالوں کے لیے استعمال کر سکتی ہے؟’حَلقُ العَانَۃِ‘ اور ’اَلاِستِحدَاد‘ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  اَلاِستِحدَاد  کی تشریح میں رقمطراز ہیں:

’ اَلمُرَادُ بِهِ اِستِعمَالُ المُوسٰی فِی حَلقِ الشَّعرِ مِن مَکَانٍ مَخصُوصٍ مِنَ الجَسدِ۔‘ فتح الباری:۱۰/۳۴۳

’’یعنی جسم کے مخصوص مقام سے بالوں کی صفائی کے لیے استرا استعمال کرنا مراد ہے۔‘‘

اور نسائی کی روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہاور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی تعبیر ’حَلقُ العَانَۃِ، (زیرناف بال مونڈنا) کے ساتھ کی گئی ہے۔ نیز ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت عائشہ اور انس رضی اللہ عنہما  کی روایات میں بھی ایسی ہی تعبیر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اَلمُرَادُ بِالعَانَةِ: الشَّعرُ الَّذِی فَوقَ ذَکَرِ الرَّجُلِ وَ حَوَالَیهِ ، وَ کَذَا الشَّعرُ الَّذِی حَوَالَی فَرجِ المَرأَةِ ۔‘

یعنی اَلعَانَۃُ سے مراد وہ بال ہیں جو مرد کے ذَکر (شرم گاہ) کے گِرد ہوتے ہیں، اور اس طرح وہ بال جو عورت کی شرمگاہ کے گرد ہوتے ہیں۔‘‘

 ان پر بھی اَلعَانَۃِ  کا اطلاق ہوتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’شَعرُ العَانَۃِ‘ کے بارے میں مرد اور عورت کے لیے صفائی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بالوں کو استرے سے مونڈھا جائے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رات کے وقت سفر سے واپس عورتوں کے پاس مت آؤ۔ یہاں تک کہ پراگندہ حالت والی گنگھی کرلے اور شوہر کو غیر حاضر پانے والی زیرِ ناف بال صاف کرلے۔ اصل سنت ہر اس چیز سے ادا ہو جائے گی جس سے بالوں کی صفائی حاصل ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ لوہے اور غیر لوہے سب کا استعمال جائز ہے۔ بشرطیکہ صفائی حاصل ہو جائے کیونکہ اصل مقصد یہی ہے آلات کو محض ثانوی حیثیت حاصل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:120

محدث فتویٰ

تبصرے