سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) ایام ماہواری میں شعبۂ حفظ کی طالبات منزل سبق ،سبقی اور پارہ کیسے سنائیں؟

  • 24048
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 891

سوال

(38) ایام ماہواری میں شعبۂ حفظ کی طالبات منزل سبق ،سبقی اور پارہ کیسے سنائیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایام ماہواری میں شعبۂ حفظ کی طالبات منزل سبق ،سبقی اور پارہ سنا سکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام بخاری، طبری، ابن المنذر اور داؤدs اس بات کے قائل ہیں کہ جنبی اور حائضہ عورت کے لیے تلاوتِ قرآن جائز ہے۔ ان کے استدلالات میں سے درج ذیل روایات ہیں۔ صحیح بخاری میں حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا  میں ہے:

 ’ فَافعَلِی مَا یَفعَلُ الحَاجُّ غَیرَ اَن لَا تَطُوفِی بِالبَیتِ حَتّٰی تَطهُرِی ۔‘ صحیح البخاری،بَابٌ: تَقْضِی الحَائِضُ المَنَاسِکَ کُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَیْتِ،رقم:۳۰۵

یعنی ’’اے عائشہ رضی اللہ عنہا  تو وہی کام کر جو حاجی لوگ کرتے ہیں۔ ما سوائے بیت اﷲ کے طواف کے یہاں تک کہ تو حیض سے پاک ہوجائے۔‘‘

وجہ استدلال یہ ہے کہ یہاں اعمالِ حج سے صرف طواف کو مستثنیٰ کیا ہے جو مخصوص قسم کی نماز ہے اور اعمالِ حج ذکر، تلبیہ اوردعاء پر مشتمل ہیں جس کے عموم میں تلاوت ِ قرآن بھی داخل ہے۔ اس طرح حائضہ کا تلاوت کرنا ثابت ہو گیا۔ جب حائضہ تلاوت کر سکتی ہے توجنبی انسان کا معاملہ تو اس سے ہلکا ہے، لہٰذا وہ بھی تلاوت کر سکتا ہے۔ نیز ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے۔

’’ کَانَ یَذکُرُ اللّٰهَ عَلٰی کُلِّ أَحیَانِهٖ ‘صحیح مسلم،بَابُ ذِکرِ اللهِ تَعَالَی فِی حَالِ الجَنَابَةِ وَغَیرِهَا ،رقم:۳۷۳، بحواله فتح الباری: ۱/۴۰۸، سنن ابن ماجه،رقم:‘‘۳۰۲

یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ہر حالت میں اﷲ کا ذکر کرتے تھے۔ اس کے عموم سے استدلال ہے کہ لفظ ذکر قرآن وغیرہ سب کو شامل ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حفظ کی طالبات ماہواری کے ایام میں قرآن پڑھ سکتی ہیں لیکن یاد رہے مَسِّ مصحف ناجائز ہے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ کے ’’ترجمۃ الباب‘‘ میں ہے:

’ وَ کَانَ أَبُو وَائِلٍ یُرسِلُ خَادِمَتَه ، وَ هِیَ حَائِضٌ اِلٰی اَبِی رَزِین فَتَأتِیهِ بِالمُصحَف فَتُمسِکُهُ بِعَلَاقَتِه ۔‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:103

محدث فتویٰ

تبصرے