سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) غنیۃ الطالبین میں اصحاب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو فرقہ مرجئہ میں ذکر کرنے کا مفہوم

  • 24007
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4382

سوال

(40) غنیۃ الطالبین میں اصحاب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو فرقہ مرجئہ میں ذکر کرنے کا مفہوم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غنیۃ الطالبین ([1]) وغیرہ میں اصحاب ابوحنیفہ نعمان رحمہ اللہ کو مرجئہ میں ذکر کیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

[1] شیخ عبدالقادر جیلانی کا شمار کبار صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔ شیخ صاحب صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ عالمِ دین اور مجتہد انسان تھے۔ بعض لوگوں نے ان کے متعلق بہت سی خرافات ان کے ذمے لگا دی ہیں۔ جیسا کہ امام ذہبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے۔

اگرچہ شیخ صاحب نے اصحاب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو فرقہ مرجئہ میں شمار کر دیا تو حقیقت میں ان کا یہی موقف تھا۔ بعض الناس نے غنیۃ الطالبین شیخ صاحب کی کتاب ہونے کا انکار کیا ہے۔ ہم دلائل سے ان کی کتاب ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جو اسلام کے ایک عظیم مصلح گزرے ہیں، انہوں ہر دور کے فتنے کا مقابلہ کیا۔ اپنی کتاب الفتویٰ الحمویۃ الکبریٰ میں اللہ تعالیٰ کی صفت کے سلسلہ میں حضرت جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کا حوالہ دے کر نقل کرتے ہیں کہ تفصیل غنیۃ الطالبین میں عربی صفحہ 48 اردو صفحہ 145 نفیس اکیڈمی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ "من متاء خريهم الشيخ الامام ابو محمد عبد القادر بن ابى صالح جيلانى رحمة الله عليه" وغیرہ، اگر یہ کتاب حضرت شیخ کی نہ ہوتی تو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کبھی اس کا حوالہ نہ دیتے بلکہ اس کی تردید کرتے کہ کتاب فلاں بزرگ کی ہے کیونکہ ان کی تحقیق اہل سنت کے نزدیک مسلمہ ہے تحقیق کا سلسلہ میں حیات ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جو رجال میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور ان کی بات تقریبا حرف آخر گردانی جاتی ہے وہ میزان الاعتدال جلد اول میں پیر صاحب کی کتاب العینیۃ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ (میزان الاعتدال جلد 1/200 ہندی مصری و طبع اثریہ 1/431)

"كيف لوارى الغنية للشيخ عبدالقادر" (صفحہ 431 اول جلد میزان) اسی طرح مورخ اسلام حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ "صنف كتاب الغنية و فتوح الغيب و منها اشياء حسنة" اور ابن عماد حنبلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں "كان عبد القادر متمسكا فى مسائل الصفات والقدر و نحوهما بالسنة مبالغا فى الرد على من خالفها قال فى كتابه الغنية المشهور" شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ صفات و قدر میں کتاب و سنت پر عمل پیرا تھے اور انہوں نے قدریہ جھمیہ وغیرہ فرقوں کا سختی سے رد لکھا ہے اپنی مشہور کتاب الغنیۃ میں (کتاب شذرات الذہب 4/201)

کشف الظنون جو مصنفین کی ایک فہرست کا نام ہے "غنية الطالبين لطريق الحق" "للشيخ عبد القادر الكيلانى الحنفى المتوفى السنة" تو اس سے ثابت ہوا کہ یہ کتاب حضرت صاحب کی ہے۔ (کشف الظنون ص 2/1211) دائرہ معارف بستانی تحریر کرتے ہیں "ذكر بعض من كتب فى مناقبه انه الف كتبا مفيده وليس بين الايدى من هذه الكتب الاكتاب المعروف بالغنية والفتح الربانى و فتوح الغيب" حضرت کی کتب کی تعداد تو بہت زیادہ ہے بعض نے ایک ہزار تک تعداد شمار کی ہے مگر غنیۃ و فتوح الغیب بہت زیادہ معروف ہے (دائرہ المعارف بستانی 11/622)

اس طرح العلوم میں لکھا ہے کہ "له كتب منها الغنية مطالب لطريق الحق والفتح الربانى وفتوح الغيب" (ج 4/47) حضرت جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا کیونکہ حنبلی لوگوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ بعض نے تو لکھا ہے کہ حضرت نے ان سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا بہرحال حنبلی کتب ان کو امام احمد کی طرف نسبت قرار دیتے ہیں جیسے ذیل ابن رجب میں لکھا ہے کہ "له كتاب الغنية وهو معروف" (ذیل 1/296)

رضا کحالہ:۔ اپنی تصنیف میں ان کی کتب کا تذکرہ کرتے ہیں "جلاء الخاطر فى الباطن والظاهر والغنية" (معجم المصنفین 5/307)

معجم المطبوعات العربیہ:۔ کے مرتب تحریر کرتے ہیں کہ "الغنية الطالبى طريق الحق" ساتھ اور بھی کتب کے نام ہیں فقہ اکبر جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نسبت کی جاتی ہے مگر حقائق اس بات کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ مولانا شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت نعمان میں اس کا انکار کیا ہے بہرحال اس کے شارح ملاں علی قاری جو حنفی مکتبہ فکر کے ایک ستون مانے جاتے ہیں انہوں نے لکھا ہے "اماماوقع فى الغنية اللشيخ عبدالقادر جيلانى" انہوں نے اس جگہ فرقہ ناجیہ کا ذکر کیا ہے اور ابوحنیفہ اور اہل اصحاب کو فرقہ قدریہ میں شمار کیا ہے۔ (شرح فقہ اکبر ص 88-89)

مولانا محمد معین سندھی:۔ جو حضرت شاہ ولی اللہ کے ہم عمر ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ "قوله فى الغنية" (دراسات اللبیب فی الاسوۃ الحسنہ: 452)

امام نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ:۔ اگرچہ نواب صاحب کے پہلے اور دوسرے دور میں بہت فرق ہے۔ آخری دور میں تو وہ خالص اہل حدیث فکر کی ترویج میں مصروف ہو گئے تھے فتح الباری ان کی وجہ سے ہندوستان میں طبع ہوئی اور مفت تقسیم ہوئی۔ اسی طرح بےشمار کتب انہوں نے طبع کروا کر اہل علم میں مفت تقسیم کیں۔ وہ خود بھی 223 کتب کے مصنف تھے جن میں فتح البیان تفسیر 10 جلد، لطائف البیان اردو گویا انہوں نے ہر فن میں کتب تحریر کیں ارجع المطالب بھی ان کی ایک اہم تصنیف ہے۔ انہوں نے اس میں فرقہ قدریہ کے تعارف میں حضرت شیخ عبدالقادر کی کتاب الغنیۃ کا نام تحریر کیا ہے کہ اس میں اس کا رد ہے مزید تفصیل اس میں دیکھ لیں۔ (ارجح المطالب فارسی ص 165/تقصار جیوالا احرار صفحہ 68)

الغنیہ: عربی زبان میں ہے اس کا ترجمہ مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی نے فارسی زبان میں جو جامعہ سلفیہ کا لائبریری میں موجود ہے اس کے متعلق دائرہ معارف لاہور لکھتا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور عالم تصنیف ہے عبدالحکیم نے اس کا فارسی ترجمہ اپنے زمانہ کے نامور صوفی شیخ بلال قادری لاہور کی فرمائش پر کیا۔ فارسی ترجمہ کے آغاز میں عبداللہ اللسیب کا خطبہ بھی ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ترجمہ شیخ جیلانی کی روحانی اجازت سے کیا گیا ہے۔ (دائرہ معارف لاہور 2/840)

اور اس کتاب میں لکھا ہے کہ ان کی تصنیف "غنية الطالبين لطريق الحق" کی حیثیت ایک معلم دینیات کی ہے اس کتاب کے شروع میں ایک سنی مسلمان کے اخلاق اور معاشرتی فرائض کی وضاحت کی گئی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا لاہور (دائرہ معارف) 12/926)

روحانی اجازت:۔ یہ تصوف ہے جس سے روحانیت کے روپ میں لوگوں کے عقائد و افکار کر تباہ کر دیا جاتا ہے بلکہ دنیا میں گمراہی کا سبب ایک تقلید اور دوسرا تصوف ہے۔ جناب من جب آپ نے حضرت شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ سے روحانی طور پر اجازت طلب کر لی اور اجازت مل بھی گئی پھر کوئی سرپھرا دعویٰ کرے یہ تصنیف شیخ کی نہیں ہے، تو پھر

تم نہ کسی کی آن نہ فغان سنتے ہو

اپنے ہی مطلب کی سنتے ہو جہاں سنتے ہو

یہ بھی یاد رہے دائرہ معارف میں شیخ پر ایک مشہور مقالہ بریلوی مولوی عبدالنبی کوکب کا ہے اس نے بھی اس کتاب کو حضرت کی شمار کیا ہے اسی طرح اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ غنیۃ ان کی مشہور اور ضخیم کتاب ہے اس میں شریعت اور طریقت کے مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ (لاہور سید محمد قاسم ص 1042)

بابائے اردو عبدالحق مرحوم کراچی:۔ جن کا شمار پاک و ہند کے عظیم سکالروں میں ہوتا اردو ادب کے ساتھ ساتھ وہ کتب کے متعلق بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے وہ شیخ جیلانی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ آپ کا مذہب کیا تھا انہوں نے کامل کے حوالہ سے حنبلی لکھا ہے۔ (کامل 11/121) اور ساتھ اور بھی حوالے نقل کئے ہیں انہوں نے تحریر کیا کہ شیخ صاحب خود غنیۃ میں کئی جگہ فرمایا "عند امامنا احمد" تو ثابت ہوا کہ غنیۃ ان کی ہی کتاب ہے اور ان کی تصانیف میں غنیۃ الطالبین، فتوح الغیب الفتح الربانی وغیرہ کو شمار کیا ہے (صفحہ 19، 27، غنیۃ الطالبین مترجم کراچی مکتبہ سعودیہ)

اسی طرح مترجم غنیۃ الطالبین نفیس اکیڈمی کراچی کی طرف سے طبع شدہ میں شفیق بریلوی جو بریلوی حضرات کے اہم شمار کئے جاتے ہیں، اس نے حضرت جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کے شروع میں حالات لکھے ہیں اور ان کی تصانیف کا بھی ذکر کیا ہے (شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ) کی تصانیف میں غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب بہت مشہور ہے اسی طرح نفیس اکیڈمی کے مالک محمد سلیم نے بھی ان کے حالات پر کچھ لکھا ہے۔ (غنیۃ الطالبین 1/ 4)

ان کی تصانیف بہت ہیں مگر ان کی تعداد آٹھ تک ملتی ہے۔ (1) غنیۃ الطالبین۔  (2) فتوح الغیب۔ (3) جلاء الخاطر۔ (4) مواہب الربافتیہ وغیرہ) (غنیۃ الطالبین 1/6)

دائرہ معارف میں حضرت پیر جیلانی کی تفسیر کا بھی ذکر کیا ہے نام "عمدہ تفسیر" کا قلمی نسخہ جو حضرت کی طرف منسوب ہے مگر بستانی کے قول کے مطابق درست نہیں ہے۔ (دائرہ 12/932)

شفیق بریلوی جو بریلوی مکتبہ فکر کے آدمی ہیں۔

وہ خود تحریر کرتے ہیں کہ

(شیخ عبدالقادر جیلانی) کے ملفوظات تصانیف و تالیفات کی تعداد بہت ہے ان میں الفتح الربانی، فتوح الغیب اور غنیۃ الطالبین بہت مشہور ہیں اسی صفحہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت (شیخ عبدالقادر جیلانی) نے غنیۃ الطالبین میں پیدائش سے موت اور ازل سے ابد تک پیش آنے والے تمام ضروری مسائل و امور کے بارے میں مکمل ہدایات مرتب فرما دی ہیں۔ (غنیۃ الطالبین مترجم کراچی نفیس اکیڈمی: 2/1)

مولانا عبدالماجد دریا آبادی:۔ جو پاک و ہند کے بہت بڑے مصنف و مفسر اور صاحب قلم گزرے ہیں انہوں نے حضرت شیخ کا تعارف لکھا ہے وہ تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے متعدد تصانیف چھوڑیں جن میں سے غنیۃ الطالبین۔ (2) فتوح الغیب 3/1 الفتح الربانی 3/ جلاء الخاطر 5/ یواقیت والحکم وغیرہ۔

انہوں نے لکھا ہے کہ یہ سب نام پروفیسر مارگویتھ نے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام۔ آرٹیکل عبدالقادر کے تحت درج کئے ہیں۔ (غنیۃ الطالبین مترجم: 1/7)

بریلوی مولوی جس کی زبان اور قلم کفر میں بہت تیز تھی جس نے محمد علی جناح، حالی و نظامی، علامہ اقبال وغیرہ کو کافر قرار دیا وہ اپنی تصنیف میں لکھتا ہے کہ شیخ صاحب نے غنیۃ الطالبین شریف تصنیف فرمائی اور مسلمان کہلوانے والوں میں جس قدر گمراہ، بدمذہب، مرتد فرقے اس وقت تک پیدا ہو چکے تھے ان سب کے عقائد کفر و ضلال کو نقل کیا ہے۔ (تجانب اہل سنت صفحہ 233)

غنیۃ کے مختلف تراجم میں شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف لکھا ہوا ہے ہر ایک نے غنیۃ کو حضرت کی کتاب قرار دیا ہے امان اللہ خان ارمان سرحدی نے لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف میں غنیۃ الطالبین کے علاوہ اور بھی چند کتابیں ہیں (غنیۃ مترجم امان اللہ خان سرحدی مطبوعہ دہلی: 48)

اسی کتاب کے صفحہ 50 پر لکھا ہے "آغاز کتاب" شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ میں نے کار ثواب سمجھ کر اور اخروی کامیابی کی امید پت ایسی کتاب لکھنے کا پختہ ارادہ کیا اور غنیۃ الطالبین اس کا نام رکھا۔ (صفحہ 50 دہلی کراچی صفحہ 19)

غنیۃ الطالبین کا دوسرا ایک مترجم لکھتا ہے اور اس میں شمس صدیقی بریلوی کا تعارف حضرت شیخ پر ہے کہ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت (شیخ عبدالقادر جیلانی) کی اہم تصنیف غنیۃ الطالبین جو 1288ھ کو پہلی بار مصر میں طبع ہوئی، اس کا فارسی ترجمہ سب سے پہلے عبدالحکیم سیالکوٹی نے کیا جو شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے معاصرین میں سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے اردو میں غنیۃ کا ترجمہ سب سے پہلے نول کشور نے عربی اردو کے ساتھ طبع کیا اس کے مترجم مولانا محبوب الدین و جمال احمد صاحبان تھے۔ (غنیۃ مترجم: ص 33،34 طبع انڈیا دہلی)

اسی طرح کراچی سے غنیۃ کا ترجمہ سید عبدالدائم جلالی کا طبع ہوا اس میں شیخ کا تعارف کچھ یوں لکھا ہے کہ یہ پوری کتاب حضرت شیخ عبدالقادر کی تصنیف ہے اہل تحقیق نے اس پر اتفاق نہیں کیا لیکن یہ بات بہرحال محقق ہے کہ حضرت شیخ کی طرف اس کتاب کا انتساب بالکل غلط نہیں سیاق عبارت ترتیب معانی پر حکمت بے باکانہ موغطت اور زور خطابت شیخ کا ہے ہاں باعث مباحث خصوصا دوزخ کی تفصیل و حالت کے متعلق احادیث منقولہ کو الحاقی اور موضوع کہا جا سکتا ہے اتباع امام ابوحنیفہ کو گمراہ فرقوں میں شمار کرنا بھی اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے کیونکہ آپ کا مسلک فقہ حنبلی اور عقائد محدثین تھے (غنیۃ دار الشاعت کراچی ص 15 مترجم جلالی طبع 1990ء)

مولانا شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی غنیۃ الطالبین کا ترجمہ کیا ہے اس میں ہے کہ غنیۃ شیخ عبدالقادر کی تصنیف ہے اور اس میں مختلف دینی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ منجملہ دیگر مباحث کے 173 اسلامی فرقوں کی تفصیل بہت دلچسپ ہے۔ شیخ محدث نے فارسی میں اس کا ترجمہ کیا تھا جو اب دستیاب نہیں ہے مولوی عبدالحیی فرنگی محلی نے اپنی بعض تصانیف میں اس ترجمہ کا حوالہ دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ان کے پیش نظر تھا۔ (حیات شیخ عبدالحق دہلوی: ص 178)

یہ بھی یاد رہے کہ تقریبا اول ترجمہ مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کا ہے اسی دور میں شیخ عبدالحق دہلوی صاحب نے بھی ترجمہ کیا کیونکہ شیخ عبدالحق کی وفات 1050ھ۔ 1642ء اور سیالکوٹی بعد میں 1067ھ ۔1656ء فوت ہوئے گویا یہ دونوں معاصر ہیں جبکہ شیخ عبدالحق محدث نے غنیۃ کا ترجمہ بھی کیا اور شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کا انکار بھی کیا ہم کہتے ہیں جب ان کی تصنیف ہی نہ تھی تو کیا ضرورت تھی ترجمہ کرنے کی اور ملاں عبدالحکیم نے کسی جگہ بھی انکار نہیں کیا۔

شیخ عبدالحق کا یہ کہنا کہ یہ تصنیف حضرت جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی نہیں حقائق اس کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے احناف کا شروع سے یہ وطیرہ رہا ہے بلکہ اب تو ایک قاعدہ کی شکل اختیار کر چکا ہے ہر وہ بات جو ہمارے مذہب کے خلاف ہو یا تو ہم اس کی تاویل کریں گے یا منسوخ سمجھیں گے۔ پاک و ہند کے احناف نے تو سرے سے بعض کتب کا انکار ہی کر دیا مثلا مولوی احمد رضا صاحب جو بریلوی مشرب کے بہت بڑے عالم تصور کئے جاتے ہیں وہ انگریز کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ اہل حدیث (وہابی) سے سخت حسد رکھتے تھے انہوں نے ہر وہ بات کی کہ جس سے اہل حدیث ختم ہو کے رہ جائیں مگر اللہ تعالیٰ جس کو قائم دائم رکھنا چاہے کون ختم کر سکتا ہے مولوی احمد رضا کی ایک کتاب جس کا نام کلمۃ حق ہے اس میں انگریز کو خراج تحسین پیش کیا گیا اب یہ حضرات اس کتاب کا انکار کرتے ہیں کہ ان کی کتاب ہی نہیں بلکہ فہرست بھی خارج کر دی گئی ہے ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اس کتاب کا حوالہ بریلوی مرحوم اور مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے خیالات و عقائد کے لحاظ سے بعد المشرقین تھا مگر جہد حریت کے خلاف تحریک خلافت کے دور میں دونوں بزرگ متفق ہو گئے تھے کلمۃ حق میں مولانا نے اسی پر تبصرہ فرمایا ہے (باغی ہندوستان ص 224) آج کل بھی بریلوی حضرات غنیۃ کا انکار کرتے نظر آئیں گے مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی حضرت شیخ عبدالقادر حنبلی مسلک رکھتے تھے بلکہ بعض نے تو لکھا ہے وہ اس مسلک سے بھی کنارہ کش ہو گئے تھے ان کا مقام مجتہد ہو گیا تھا بریلوی حضرات کیوں اس کو خواہ مخواہ اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں اگر وہ لکھتے ہیں کہ حنفیہ فرقہ مرجیہ ہے تو چیخ و پکار کرتے نظر آتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے یہ سب کچھ پیٹ کا دھندہ ہے اللہ بچائے رکھے آج کل تو حنفی حضرات نے بڑے شوروغل سے اس بات کا انکار کیا ہے کہ یہ (عبدالقادر جیلانی) صاحب کی کتاب نہیں ہے ہم عرض کرتے ہیں جناب من جب پیر صاحب کا تعلق حنبلی مشرب سے ہے آپ کیوں ان کی وکالت کرتے ہیں۔ (جاوید)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفھیمات میں لکھا ہے کہ "ارجا" دو قسم کا ہے: ایک تو وہ ارجا ہے کہ قائل کو اہل سنت سے نکال دیتا ہے دوسرا وہ ہے کہ قائل کو اہل سنت سے نہیں نکالتا۔

اول:

یہ ہے کہ اس بات کا معتقد ہونا کہ جس نے زبان سے شہادتین کا اقرار کیا دل سے تصدیق کی اس کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا۔

دوسرا:

یہ اعتقاد رکھنا کہ عمل ایمان کا جز نہیں لیکن ثواب اور عقاب اس پر مرتب ہے اور دونوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کا مرجئہ کے خطاکار ہونے پر اجماع ہے کہ ثواب و عذاب عمل پر مرتب ہوتا ہے پس صحابہ و تابعین کا مخالف بےشک گمراہ اور مبتدع ہے اور دوسرے مسئلہ پر سلف کا اجماع ثابت نہیں ہوا۔ بلکہ دلائل متعارض ہیں۔ بعض آیات و احادیث اور آثار اس معنی پر دلالت کرتے ہیں کہ ایمان غیر عمل ہے بہت سے دلائل اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ: ایمان کا اطلاق قول و عمل کے مجموعہ پر آتا ہے اور یہ نزاع لفظی معلوم ہوتا ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ: عاصی ایمان سے خارج نہیں ہوتا اگرچہ عذاب کا مستحق ہے اور جو دلائل اس پر دال ہیں کہ ایمان چیزوں کے مجموعے کا نام ہے تھوڑی سی توجہ سے ان کو ظاہر سے پھیرنا ممکن ہے۔ انتہی

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی اصحاب ابوحنیفہ سے مرجئہ ہونے کی مراد شق ثانی ہے اور اس پر کچھ غبار نہیں۔ اگرچہ دلائل میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیث کا مذہب راجح ہے یعنی ایمان ([1])، اقرار و تصدیق اور عمل کے مجموعے کا نام ہے، یہی قول قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا مالابد میں ہے سو کوئی اشکال باقی نہ رہا۔


[1] جامعہ سلفیہ بنارس (ہند) کے استاد جناب رئیس احمد ندوی حفظہ اللہ نے اللمحات الباری الی ما انواری الباری من الظلمات کے نام سے کتاب تحریر کی ہے جس میں احناف کا چہرہ دکھایا گیا ہے یہ کتاب ہر اہل علم کے علاوہ مفید عام ہے۔ (جاوید)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:369

محدث فتویٰ

تبصرے