السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وصیت میں ضرر پہنچانے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس وصیت میں وارثوں کا ضرر، حیلہ یا شرط وصیت یا شرط وقف سے ہو وہ خاص و عام دلائل شرعیہ کی رو سے باطل ہے۔ عام دلیل: جس طرح حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ في الاسلام ([1])
اسلام میں نقصان اٹھانا اور نقصان پہنچانا درست نہیں۔
امام شوکانی کی مختصر میں ہے: جس نے ایسی چیز وقف کی جس میں ورثاء کا نقصان ہو تو وہ وقف باطل ہے، اور اس (مختصر) کی کتاب الوصیت میں ہے کہ: ضرر والی وصیت درست نہیں۔
اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: کوئی مرد و عورت ساٹھ برس تک اللہ کی بندگی کا عمل کرتے رہتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آ جاتا ہے اور وصیت میں ضرر پہنچاتے ہیں تو اس کے لئے آگ واجب ہو جاتی ہے۔ ([2]) نے اس کا معنی روایت کیا ہے، اور ان دونوں نے ساٹھ کی جگہ ستر کہا، اور ترمذی نے اس کو حسن کہا۔ اس کی سند میں شہر بن حوشب ہے اور اس میں کلام ہے امام احمد اور یحییٰ بن معین نے اس کی توثیق کی۔ سعید بن منصور نے بسند صحیح ابن عباس سے موقوفا روایت کیا ہے جس کے راوی ثقہ ہیں۔ اور زواجر میں ہے، فرمان بای تعالیٰ ہے﴿مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ (سورۃ النساء: 11) یعنی وصیت کے بعد جو ہو چکی ہے یا قرض کے۔ یہ میراث کے باب میں ہے جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اور بہتر یہ ہے کہ اپنے عموم پر رہے۔
اور ابن عادل کی تفسیر میں ہے کہ، وصیت میں ضرر پہنچانا کئی طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ: ثلث سے زیادہ کی وصیت کر کے فوت ہو جائے۔ بالکل مال یا بعض مال کا کسی اجنبی کے لئے اقرار کر جائے یا ورثاء کو میراث سے محروم کرنے کے لئے کسی بے بنیاد قرضہ کا اپنے ذمہ اقرار کر کے یا جو قرض کسی سے لینا تھا اس کا اقرار کر لے کہ میں لے چکا ہوں یا کوئی چیز سستی بیچے یا مہنگی خرید لے۔ یہ سب کچھ اس غرض سے کرے کہ وارثوں کو مال نہ پہنچے یا ثلث مال کی وصیت ثواب کی غرض سے نہیں بلکہ ورثہ کم کرنے کی نیت سے۔ یہ تمام باتیں وصیت میں نقصان پہنچانے کی صورتیں ہیں، انتہی۔
میں کہتا ہوں کہ:
آیت کریمہ اپنے ماسوا سے مستغنی کرتی ہے کیونکہ اس میں عدم اضرار کے ساتھ جائز وصیت کی قید ہے اور اولاد میں بخشش اور عطا برابر کرنے کے دلائل اس کی تائید کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر نہ کرنے کو جور (ظلم) فرمایا اور کہا " لا أشهد علی جور " یعنی میں بے انصافی کا گواہ نہیں بنتا۔
[1] نصب الرایہ 4/386، ارواء الغلیل 3/441، بیہقی 6/157
[2] ابوداؤد، ترمذی، احمد شاکر 4/431 اور ابن ماجہ 2/902
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب