سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

  • 23990
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1431

سوال

(23) فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سنت سے ثابت ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعا میں مطلق ہاتھ اٹھانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل دونوں سے ثابت ہیں، لیکن فرض کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ فرائض ہی میں خصوصیت سے ہاتھ اٹھانے ثابت ہوں یا فرائض ہی میں منع ہو بلکہ دلائل کا اطلاق و عموم فرض کو بھی شامل ہے جب تک خصوصیت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔

دعا میں مطلق ہاتھ اٹھانے کے دلائل:

1) ۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اس قدر ہاتھ اٹھایا کرتے تھے کہ آپ کی بغل مبارک کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔ (رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر: 1/141)

2) ۔۔۔ اور سھل بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلیوں کو کندھوں کے برابر کرتے اور دعا فرماتے۔ (رواہ البیہقی۔ دعوۃ الکبیر: 1/140، حاکم 1/535)

3) ۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسئلة (یعنی دعا کا ادب یہ ہے کہ تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھائے۔ (ابوداؤد 2/166)

4) ۔۔۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ: تمہارا ہاتھوں کا اٹھانا بدعت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس (یعنی سینے) سے زیادہ نہیں اٹھایا کرتے تھے۔ (مشکوٰۃ 2/697، البانی)

5) ۔۔۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک تمہارا رب حیا والا صاحب کرم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتا ہے جب اس کی طرف ہاتھ اٹھائے کہ ان کو خالی لوٹا دے۔ (ترمذی، ابوداؤد 2/165، ابن ماجہ 2/1273 فوائد، بیہقی)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بلوغ المرام میں رقمطراز ہیں کہ اس حدیث کو اصحاب سنن اربعہ نے ماسوا نسائی کے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا۔

6) ۔۔۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو ہاتھوں کی اندرونی حصہ سے سوال کرو اور ہاتھوں کی پشت سے سوال نہ کرو۔ (ابوداؤد 2/165)

7) ۔۔۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تھے تو دونوں ہتھیلیوں کو ملاتے اور ان کا اندرونی حصہ اپنے چہرہ کی طرف کرتے۔ (ابوداؤد 2/166، مشکوٰۃ 2/697)

8) ۔۔۔ اور حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو اٹھاؤ اس سے قبل کہ طوقوں میں جکڑے جائیں۔ ان دونوں روایات کو امام غزالی نے احیاء العلوم میں ذکر کیا ہے۔ (احیاء العلوم 1/305)

دعا کے بعد ہاتھوں کا چہرے پر پھیرنا:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے ان کو اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک چہرے پر نہ پھیر لیتے۔ ترمذی 5/464۔ امام ترمذی نے اس حدیث کے لئے "دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا" مستقل باب قائم کیا ہے اور حدیث کے ذکر کے بعد کہا ہے یہ حدیث غریب ہے اس کو ہم حماد بن عیسیٰ ہی کی روایت سے پہنچاتے ہیں جو کہ اسے روایت کرنے میں منفرد اور قلیل الحدیث ہے اور اس سے لوگوں نے حدیث نقل کی۔ اور حنظلہ بن ابی سفیان ثقہ ہے، یحییٰ بن سعید القطان نے اس کی توثیق کی ہے، انتہی۔ اور سائب بن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہاتھ اٹھاتے تو اپنے چہرے پر پھیر لیتے۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر: 1/139، ابوداؤد 2/166، مشکوٰۃ 2/695)

امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ان کو جب تک چہرے پر نہ پھیر لیتے ہٹاتے نہ تھے۔ (ترمذی)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بلوغ المرام میں کہا ہے کہ اس حدیث کے شواہد ہیں۔ انہیں میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ابوداؤد میں مذکورہ ہے اور یہ تمام طرق اس بات کے متقاضی ہیں کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے، انتہی۔ سو یہ وہ مرفوع اور موقوف دلائل ہیں جن سے مطلقا دعا میں ہاتھ اٹھانے ثابت ہیں اور ان میں ہاتھ چہرے پر پھیرنے کا بھی ذکر ہے۔

دعا میں ہاتھ اٹھانے کے خاص مقامات:

اور درج ذیل خاص خاص مقامات پر ہاتھ اٹھانا معلوم ہوتا ہے۔

صحیحین میں ہے کہ:

٭ اور خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھائے: اللهم ابي ابرء اليك مما صنع خالد (فتح الباری 8/57، نسائی) یعنی اے اللہ جو خالد نے کیا میں اس سے تیری طرف براءت کا اظہار کرتا ہوں۔

٭ اور کوہ صفا پر آپ نے ہاتھ اٹھائے۔ (مسلم، ابوداؤد)

٭ اور بقیع میں اہل بقیع کی مغفرت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ہاتھ اٹھائے۔ (بخاری، مسلم)

٭ اور آیت: انهن اضللن كثير من الناس ۔ (انہوں نے لوگوں کو بہت بہکایا) کی تلاوت کے وقت ہاتھ اٹھائے۔

٭ اور یہ دعا اللهم امتي (اے اللہ! میری امت کو بچا۔ اے اللہ میری امت کو بچا) کے وقت بھی ہاتھ اٹھائے۔ (مسلم)

٭ اس طرح ایک ایسے لشکر کو روانہ کرتے وقت جس میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ہاتھ اٹھا کر فرمایا:

اللهم لا تمتني حتي يريني عليا ۔ اے اللہ! علی کے دکھانے سے قبل مجھے مدت نہ دیجیو۔ (رواہ الترمذی)

٭ ایسے ہی اہل بیت پر گلیم (چادر) ڈالتے ہوئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا:

اللهم هؤلاء اهل بيتي (حاکم)۔ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔

نیز ان مقامات کے علاوہ بھی ہاتھ اٹھانے ثابت ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مہذب میں ہاتھ اٹھانے کے ثبوت میں صحیحین وغیرھما کی تیس (30) کے قریب احادیث جمع کی ہیں۔ امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ایک جز تحریر کیا ہے، جبکہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں رقمطراز ہیں:

بعض لوگوں سے مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: دعا میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔ تو مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ اس باب میں تو احادیث مشہور ہی نہیں بلکہ متواتر ہیں، اس لئے کہ وہ متعدد طرق سے ثابت ہیں۔ سو اس رسالہ میں، میں نے مسئلہ مذکور کو ثابت کیا ہے تاکہ جو کوئی اس کی طرف رجوع کرے اس سے فائدہ اٹھائے اور جو کوئی اس رتبہ کا نہ ہو سنت نبوی علیہ الصلوۃ والسلام میں بلا تحقیق کلام نہ کرے۔

میں کہتا ہوں:

کہ دعا میں ہاتھ اٹھانے کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل سے تقریبا چالیس سے زائد روایات منقول ہیں، جن میں صحیح بھی، حسن اور ضعیف بھی ہیں۔ اور وہ بیس سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کردہ ہیں، انتہی۔ اس کے بعد ان احادیث کو بمع جرح و تعدیل کے ذکر کیا ہے۔ اور وہ رسالہ فقیر کے پاس موجود ہے۔

لیکن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کو بخاری نے روایت کیا ہے کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استسقاء کے بغیر کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے اور اس موقع پر اس قدر ہاتھ بلند کرتے کہ بغل شریف کی سفیدی نظر آنے لگتی، سو جمہور کے نزدیک یہ آپ کی خاص صفت یعنی ہاتھ زیادہ بلند کرنے پر محمول ہے۔ چنانچہ راوی کا قول " حتي يري بياض ابطيه " اسی پر دلالت کرتا ہے، یا کیفیت رفع پر محمول ہے، جیسا کہ مسلم کی روایت میں آیا ہے: استسقي فاشار بظهر كفه الي السماء ۔ آپ نے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کر کے طلب بارش کی دعا کی۔ یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نہ دیکھنے پر محمول کیا ہے (مسلم/896، حدیث مصابیح السنۃ 1/504) اور اس سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا عدم مشاہدہ ثابت نہیں ہوتا۔ اور پہلی توجیہ قوی ہے اور اس جواب سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا جواب بھی موجود ہے کہ دعا میں استسقاء کے بغیر کہیں ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے اور ان پر وہ احادیث جو ہاتھ اٹھانے کے ثبوت میں عموما یا خاص مواقع میں وارد ہوئی ہیں حجت ہیں۔

فرض نماز کے بعد دعا کرنا:

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا یا رسول اللہ! کون سی دعا میں قبولیت کی زیادہ امید ہے؟ آپ نے فرمایا: رات کے انتہائی حصہ میں اور فرض نماز کے بعد (ترمذی 5/528) (نسائی عمل الیوم واللیلۃ، مصنف عبدالرزاق 2/224) اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے معاذ! خدا کی قسم میں تجھے دوست رکھتا ہوں سو تم فرض نماز کے بعد اس دعا کو ترک نہ کرنا:

اللهم اعني علي ذكرك وشكرك وحسن عبادتك

"اے اللہ! اپنے ذکر شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما" ([1])

یہ دونوں روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فرض نماز کے بعد دعا کرنی چاہیے اور ہاتھ اٹھانے دعا کے آداب میں سے ہے۔ سو ہر دعا میں ہاتھ اٹھانے چاہئیں لیکن حق یہ ہے ۔۔۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض کے بعد ایسا کرنا دائمی عمل نہ تھا۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ حدیث:

كنت اعرف انقضاء صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم بالتكبير ([2])

"میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اختتامِ نماز کو تکبیر (اللہ اکبر) سے پہچانا کرتا تھا۔"

اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے حرمین شریفین " زادهما الله تشريفا و تعظيما " میں یہ معمول ہے کہ صرف امام کے سلام پھیرنے کے ساتھ ہی لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور امام کی دعا کا انتظار نہیں کرتے، حالانکہ امام دستور حال کے مطابق کچھ دیر ذکر اور دعا کے لئے بیٹھا رہتا ہے لہذا " سفر السعادة " میں ہے کہ: سلام کے بعد یہ مروج دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات منبع سعادات میں سے نہیں تھی اور اس باب میں کوئی حدیث ثابت نہیں اور یہ ایک بدعت حسنہ ہے۔ انتہی

ان کی مراد آج کل کی ھئیت کذائی کے دوام کی نفی ہے، ورنہ فرض نماز کے بعد دعا ثابت ہے جس کا بیان ہو چکا ہے اور شیخ عبدالحق دہلوی نے " شرح سفر السعادت " میں فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث بروایت ترمذی جس سے نماز کے بعد دعا کا مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے ذکر کر کے کہا: شائد مصنف کے نزدیک یہ حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی اسی لئے کہا کہ "بدعت حسنہ" ہے اور امام جزری نے حصن حصین میں ترمذی اور نسائی کے حوالہ سے فرض نماز کے بعد دعا کو اوقات اجابت سے شمار کیا۔ ہاں اگر مابعد اگر صلاۃ مکتوبہ سے بعد تشہدِ سلام سے قبل مراد لیا جائے تو مصنف کا قول حدیث سے موافق ہو سکتا ہے۔ انتہی

حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی رائے:

اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے، چنانچہ انہوں نے "ھدی نبوی" ([3]) میں کہا کہ:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے متعلق اکثر جو دعائیں فرمائیں یا پڑھیں وہ نماز کے اندر تھیں، انتہی۔ یعنی "مابعد صلاۃ" سے آخر کا، قریب مراد ہے جو کہ تشھد ہے نہ کہ بعد از سلام۔ اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ سو اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہو جائے تو دعا میں ہاتھ اٹھانا بھی ثابت ہو جائے گا، لیکن اس کے ثبوت میں کلام ہے۔ کیونکہ دبر کا اطلاق اس چیز پر آتا ہے جو صاحب دبر کی جنس میں داخل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں:﴿وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ﴾ ۔ یعنی جو کوئی ان میں سے اس دن پشت دکھائے۔ اس طرح اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جو اس کی جنس سے نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس قوم میں: ﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ﴿٤٩﴾. أي أخير الليل عقب غروبها اور رات میں سے اس کی پاکی بیان کر اور تاروں کے پیچھے۔ اور جیسے عتق التدبير بولا جاتا ہے۔ پس یہ لفظ دونوں معنوں میں مشترک ہو گا اور چونکہ مشترک لفظ کا ایک یا دو معنوں پر بلا دلیل محمول کرنا درست نہیں۔ اس لئے ناچار فیصلہ کا طریقہ یہ ہے کہ استعمال شرعی کی طرف رجوع کی جائے، اس کی وضاحت یوں ہو گی جیسا کہ بخاری میں ہے:

تسبحون و تحمدون و تكبرون خلف كل صلاة

"ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار سبحان الله والحمدلله اور الله اكبر پڑھو۔" ([4])

یہاں " خلف كل صلاة " میں خلف سے وہ زمانہ مراد ہے جو سلام کے بعد ہوتا ہے یہ اس پر دلیل ہے کہ "دبر" سے مراد مابعد صلاۃ ہے۔ یعنی فراغت کے بعد۔ اور ابوداؤد کی حدیث کا یہ اضافہ " اثر كل صلوة " (ہر نماز کے بعد) اس کو اچھی طرح مزید واضح کر دیتا ہے اور یہ حدیث:

من سبح دبر صلوة الغداة مائة تسبيحة وهلل مائة تهليلة غفرت ذنوبه ولو كانت مثل زبد البحر ([5])

"جو کوئی نماز فجر کے بعد سو بار سبحان اللہ اور سو بار لا اله الا الله پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اگرچہ دریا کی جھاگ کے برابر ہوں۔"

یہاں پر دبر سے مراد مابعد نماز ہے یعنی سلام پھیر کر نماز سے نکل جانے کے بعد کا مفہوم ہے۔ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مطلب کو مزید واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من قال دبر صلوة الفجر وهو نان رجليه قبل ان يتكلم لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علي كل شيء قدير. اخرجه الترمذي ([6])

"جو کوئی فجر کی نماز کے بعد اسی حال میں کہ وہ اپنا پاؤں موڑے ہوئے ہو (یعنی تشھد کی حالت میں بیٹھا ہوا ہو) کلام کرنے سے قبل لا اله الا الله وحده لا شريك له ۔۔۔ الخ کے آخر تک کہے۔"

سو یہ مقام خلاف میں نص ہے، اس لئے یہاں اگر "دبر صلوة" سے مراد قبل سلام رکھا جائے تو " ثان رجليه " اور " قبل ان يتكلم " کی قید بےکار ہو جاتی ہیں۔ پس دعا فرض کے بعد ثابت ہوئی، اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی سلام سے قبل کی تخصیص ختم ہو گئی، لیکن فتح الباری میں کہتے ہیں کہ: اکثر حنابلہ جن سے میری ملاقات نہیں ہے وہ اس طرح سمجھ رہے ہیں کہ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی مراد نماز کے بعد دعا کی نفی کرنا ہے ۔۔۔ مگر یہ درست نہیں ([7]) بلکہ ان کی کلام کا حاصل یہ ہے کہ: نمازی کا سلام کے فورا بعد رو بقبلہ بیٹھ کر بقید استمرار دعا نہیں کرنی چاہیے لیکن امام اگر اپنا چہرہ پھیر کر پہلے اذکار مشروعہ پڑھ کر دعا کرے تو ان کے نزدیک بھی منع نہیں ہے، انتہی۔

اگر یہ مفہوم درست ہو جائے تو کوئی نزاع نہیں رہتا، لیکن حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی کلام معنی اول میں ظاہر ہے۔ واللہ اعلم


[1] (عون 1/حدیث 1518، مسند احمد 5/245، 247 حاکم 1/273، 3/273، عمل یوم 46، نسائی 3/53، ابن حبان 3/234)

[2] فتح الباری 2/325، مسلم 1/217، مصابیح 1/359

[3] یعنی زاد المعاد فی ھدی خیر العباد

[4] (فتح الباری 2/325، مسلم 1/416، مصابیح 1/361)

[5] (مسلم 1/448)

[6] (وقال حسن صحیح) عمل الیوم واللیلۃ: 55

[7] فرض نماز کے بعد دعا کا واقعہ:

البدایۃ والنھایۃ 6/328 میں حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کے تذکرے میں فرماتے ہیں کہ:

علاء الحضرمى من سادات الصحابة العلماء العباد مجابى الدعوة کہ حضرت علاء رضی اللہ عنہ علماء عابدین اور سادات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تھے اور مستجاب الدعوات تھے۔

پھر بحرین کے مرتدین کے خلاف جنگ کے ایام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پریشانی کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں:

و نودى بالصلوة الصبح حين طلح الفجر فصلى بالناس فلما قضى الصلوة جثا على ركبتيه و جثا الناس ونصب فى الدعاء ورفع يديه و فعل الناس مثله حتى طلعت الشمس و جعل الناس ينظرون الى سراب الشمس يلمع مرة بعد اخرى وهو يجتهد فى الدعاء

اور طلوع فجر کے وقت اذان دی گئی تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز پوری کر لی تو گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور لوگ بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور ہاتھ اٹھا کر (خشوع و خضوع) سے دعا میں مشغول ہو گئے۔ لوگوں نے بھی ساتھ ہی ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنی شروع کی، حتیٰ کہ آفتاب طلوع ہو گیا۔ لوگ سورج کی کرنوں کو چمکتا دیکھتے اور حضرت علاء رضی اللہ عنہ دعا میں پورے انہماک سے مشغول رہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:314

محدث فتویٰ

تبصرے