سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا

  • 23981
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2749

سوال

(14) انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین و مفتیان شرع متین ارشاد فرمائیں کہ: جب اذان میں " اشهد ان محمدا رسول الله " یا خطبہ میں " اللهم انصر من نصر دين محمد صلي الله عليه وسلم واخذل من خذل دين محمد صلي الله عليه وسلم " کہا جاتا ہے تو اکثر لوگ انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟ کیا کتب احادیث و فقہ یا اقوالِ ائمہ سے اس کا کوئی ثبوت پایا جاتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کا کہیں سے جواز ثابت نہیں تو اس کے کرنے والے کیسے ہیں؟ اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اس فعل سے آنکھ کی روشنی تیز ہوتی ہے اور اس کو فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں کیا یہ بات حدیث و فقہ میں کہیں موجود ہے یا نہیں؟  بينوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں جان لیجئے کہ دنیا فانی ہے، چند روز کی زندگانی ہے مرنا برحق ہے، جہاں تک ہو سکے جمع امور میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنی چاہیے، کیونکہ فلاح دارین اسی میں ہے اور اپنی طرف سے ہرگز کچھ ایجاد نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ وہ عند الطبع مرغوب و مستحسن ہو، جیسا کہ یہی امر لیجئے، یعنی تقبیل ابہام وغیرہ، جاہل عوام کالانعام بلکہ بعض خواص کے نزدیک بھی بہتر و احسن شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ عند التاذین یا عند قول الخطیب " اللهم انصر من نصر دين محمد صلي الله عليه وسلم ... الخ " انگوٹھوں وغیرہ کا چومنا صحابہ کرام نے نہیں کیا باوجودیکہ " انه لم يكن شخص احب اليهم منه " یعنی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نزدیک کوئی شخصیت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر محبوب نہ تھی۔ (الحدیث) اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی امام نے یہ عمل کیا ہے اور جو فعل نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نہ ائمہ اربعہ میں سے تو وہ کام بدعت اور مردود ہوتا ہے۔

انگوٹھے چومنا عبادت ہے:

قال الامام الجلي السيوطي الاحاديث التي رويت في تقبيل الانامل و جعلها علي العينين عند سماع اسمه صلي الله عليه وسلم عن المؤذن في كلمة الشهادة كلها موضوعات، انتهي ما في الرسالة المسماة بتيسير المقال للامام الكبير الشيخ/جلال الدين السيوطي

(موضوعات کبریٰ 316/315 طبع سانگلہ ہل)

"امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: وہ احادیث جو کہ مؤذن کے کلمہ شہادت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر لگانے سے متعلق ہیں وہ تمام تر موضوع ہیں۔ (تیسیر المقال للسیوطی) ([1])

شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے کبائر علماء کے اقوال:

ماہرین فن لکھتے چلے آ رہے ہیں کہ یہ احادیث بے اصل ہیں اور پایہ صحت کو نہیں پہنچتیں۔ جیسا کہ الشیخ ابن طاہر الحنفی، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ، محدث شیخ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے اپنی ان مشہور کتابوں میں ذکر کیا ہے جو ان کی طرف منسوب ہیں۔ اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتوی تقبیل العینین میں فرماتے ہیں کہ جو شخص اس فعل کو سنت سمجھ کر کرے وہ متبدع اور اس کا یہ عمل بدعت ہے۔ اور بہت سے علمائے ماہرین اس فعل کو بدعت کہتے ہیں بہ اندیشہ طوالت ان کا ذکر ترک کر رہا ہوں۔ اور مولانا الشیخ یعقوب حبرخی نے خیر الجاری شرح صحیح بخاری میں اس فعل کو صاف صاف بدعت لکھا ہے۔ الغرض یہ فعل ہرگز درست نہیں ہے بلکہ بدعت ہے۔

میں کہتا ہوں:

ان مسلمان دینداروں پر افسوس صد افسوس ہے کہ جو تعلیم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے کہ یہ کلمات اذان کے وقت یا اس کے بعد کہا کرو اس کو تو ترک کر دیا اور اپنی طرف سے بہت سی باتیں ایجاد کر لیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جیسا مؤذن کہتا ہے ویسا ہی کہو، تمام قسم کے صغیرہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اذان ختم ہونے کے بعد درود شریف اور یہ دعا پڑھے:

اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ  (بخاری)

"اے اللہ! اے اس مکمل دعوت اور قائم رہنے والی نماز کے رب، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مقام وسیلہ ([2]) اور فضیلت عطا کیجئے اور انہیں (شفاعت کے) اس "مقام محمود" پر سرفراز فرمائیے جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔"

یہاں تک ہی یہ دعا پڑھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اس کے لئے واجب ہو گی۔ اور بعض لوگ " وَعَدْتَهُ " کے بعد اور بھی چند کلمات پڑھتے ہیں وہ درست و ثابت نہیں ہیں، کیونکہ وہ کسی صحیح حدیث شریف میں نہیں آئے۔ ([3])

اذان کے بعد "محمد رسول اللہ" کا اضافہ کرنا:

اور بعض لوگ اذان کے بعد " لا اله الا الله " کے ساتھ " محمد رسول الله " کا اضافہ کرتے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ " محمد رسول الله " قرآن کریم (و حدیث) وغیرہ میں موجود ہے لیکن خاص اس موقع پر شارع سے ثابت نہیں ہے اور جو امر شارع سے ثابت ہو وہی کرنا چاہیے۔ اپنی طرف سے ایجاد کر لینا بہت مذموم عمل ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ: جب کوئی چھینک لے تو " الحمدلله " کہے اور سننے والا " يرحمك الله " یہ شارع کا حکم تھا۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وقت ایک شخص نے چھینکنے کے بعد " الحمدلله السلام عليكم " کہا۔ حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا " عليك و علي امك " یعنی تم پر اور تمہاری ماں پر سلام ہو، تو وہ شخص کچھ خفا سا ہو گیا۔ حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: بھائی خفا کیوں ہوتے ہو؟ میں نے کوئی بے جا کلمہ تو نہیں کہا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے کہا تھا جیسا کہ تم نے چھینک لینے کے بعد کہا ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی جواب دیا تھا جیسا کہ میں نے! اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مقام سلام کہنے کا نہیں ہے۔ (ھکذا فی الترمذی و ابی داؤد والمشکاۃ وغیرھا من کتب الحدیث۔ مسلم 1/381۔ مصابیح السنہ 1/363)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے چھینک لی اور اس کے بعد " الحمدلله والسلام علي رسول الله " کہا۔ تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور درود رسول اللہ پر ہیں، لیکن یہ مقام درود وغیرہ کا نہیں ہے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے (یعنی الحمدللہ کہنے کی) ویسا ہی کرو، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس موقع پر اول الذکر کلمہ الحمدلله والسلام علي رسول الله  کہنے کی تعلیم نہیں  دی ہے۔ (کذا فی المشکاۃ الالبانی 1/313)

اب (ماہرین) فطانت پر مخفی نہیں ہے کہ معاذ اللہ "محمد رسول اللہ" کا ذرہ بھی انکار نہیں ہے، لیکن عرض یہ ہے کہ یہ اس کا موقع و محل نہیں ہے۔ اس موقع پر جو اذکار و ادعیہ ہیں انہیں کو پڑھنا چاہیے۔ نیز شیخ عبدالحق حنفی دہلوی نے بھی یہی لکھا ہے کہ "محمد رسول اللہ" کا یہ محل و موقع نہیں ہے اور اس کا کہنا نا درست ہے۔ (کذا فی اشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ للشیخ عبدالحق حنفی دہلوی) انتھی 1/380

اذان کے جواب کا مسنون طریقہ:

اذان سے متعلق مسنون طریقہ سمجھ لینا چاہیے۔ اولا مؤذن جب "اللہ اکبر" کہنے تو سننے والا بھی اسی طرح کہے اور جب مؤذن " اشهد ان لا اله الا الله " کہے تو وہ بھی جواب میں یہی کہے، اور جب مؤذن " اشهد ان محمدا رسول الله " کہے تو سننے والا بھی " اشهد ان محمدا رسول الله " کہے اور انگوٹھے وغیرہ نہ چومے کیونکہ یہ بدعت ہے، کمامر، اور مؤذن " حي علي الصلاة " کہے تو سننے والا " لا حول ولا قوة الا بالله " کہے اور جب " حي علي الفلاح " کہے تو سننے والا " لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم " ([4]) کہے۔ جبکہ بعض لوگ ان دو کلموں یعنی " حي علي الفلاح " کو سن کر " ماشاءالله كان وما لم يشا لم يكن " (جو اللہ تعالیٰ نے چاہا سو ہو گیا اور جو کچھ نہ چاہا وہ نہ ہوا) کہتے ہیں، یہ کہنا نادرست اور بے اصل ہے (ھکذا فی شرح الشیخ/عبدالحق حنفی الدہلوی ([5])) اور جب مؤذن " الله اكبر " کہے تو سننے والا بھی " الله اكبر " کہے اور جب وہ " لا اله الا الله " کہے تو سننے والا بھی صرف " لا اله الا الله " کہے اور " محمد رسول الله " کو ساتھ نہ ملائے کیونکہ یہ اس کے کہنے کا مقام نہیں ہے، بلکہ یہاں ایسا کہنا بدعت ہے۔

افسوس جہالت نے ایسا زور پکڑا ہے کہ جو حق بات ہے وہ ناحق اور باطل شمار کی جاتی ہے اور جو بات باطل اور بے اصل ہے وہ مروج اور دائرہ حق میں شمار کی جاتی ہے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کہ: جب سنت کی جگہ بدعت اور بے اصل بات قائم کی جائے تو سنت تو نیست و نابود ہو جاتی ہے اور بے اصل بات محکم اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ (مشکاۃ) حقیقت میں یہی حال ہے کہ سنت متروک اور بدعت رواج پا رہی ہے۔

اقامت کے جواب کا مسنون طریقہ:

اقامت کا جواب بھی ویسا ہی دیا جائے جیسا کہ اذان میں مذکور ہوا۔ البتہ مؤذن جب (فجر کی اذان میں) " الصلاة خير من النوم " ([6]) کہے تو سننے والا بھی " الصلاة خير من النوم " ہی کہے اور " صدقت و بررت " وغیرہ نہ کہے، تاہم اقامت میں جب " قد قامت الصلاة " کہا جائے تو سننے والا " اقامها الله و ادامها " ([7]) کے علاوہ کچھ نہ کہے کیونکہ اس کے علاوہ کا ثبوت حدیث میں موجود نہیں ہے۔

مؤذن کے جواب سے فارغ ہو کر درود شریف اور مذکورہ بالا دعا پڑھے نیز اپنے یا غیر کے لئے جو دعا مانگے قبول ہو گی یہ مسنون طریقہ ہے، باقی بدعت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب۔

حررہ العاجز ابو محمد عبدالوھاب الفنجابی الجھنگوی ثم الملتانی نزیل الدہلی، تجاوز اللہ عن ذنبہ الخفی والحبلی فی اواخر شہر اللہ المحرم 1306ھ

اسمائے گرامی مؤیدین علمائے کرام:

٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ 1299ھ

٭ خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب 1300ھ

٭ عبدالجبار بن عبد العلی 1300ھ حیدرآبادی

٭ عبدالرؤف 1303ھ

٭ ابو محمد عبدالحق لودھیانوی 1305ھ

٭ جواب صحیح ہے۔ نمقہ محمد یٰسین الرحیم آبادی العظیم آبادی، عفی عنہ

٭ جواب صحیح ہے۔ حررہ العاجز محمد فقیر اللہ الفنجابی

٭ جواب ہذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ

٭ اور بعض (لوگ) اذان کے بعد دعا میں " الدرجة الرفيعة " اور " الصلاة خير من النوم " کے جواب میں " صدقت و بررت و بالحق نطقت " کہتے ہیں اس کی بھی کوئی اصل نہیں، بلکہ جواب میں بھی ویسا ہی کہنا چاہیے جیسا کہ مؤذن کہتا ہے، مگر جہاں تصریح ہو وہاں ویسا ہی کہے اپنی طرف سے کچھ ایجاد کر کے اضافہ نہ کیا جائے۔ محمد طاہر سلہٹی 1304ھ

٭ محمد یوسف 1303ھ


[1] رد المختار 1/293، کس قدر ظلم ہے کہ بعض الناس اپنی قدیم کتب کی طرف رجوع ہی نہیں کرتے جن کی آج یہ تقلید کرتے ہیں انہوں نے دلائل سے رد کیا ہے، جیسے در مختار میں ہے کہ ولا يشتغل بغير احاجة۔ ينبغى للسامع ان لا يتكلم ولا يشتغل بشىء فى حالة الاذان والاقامة۔ اذان و اقامت سننے والا سوائے جواب دینے کے نہ زبان سے کوئی کلمہ نکالے اور نہ ہاتھ سے کوئی کام کرے۔ (درمختار 1/293) رد المختار میں علامہ شامی نے نقل کیا ہے کہ لم يصح فى المرفوع من كل هذا شىئ 1/193، تمیز الطیب ص 189 المقاصد الحسنہ، ص 450، کشف الخفا ج 2 ص 206۔ (جاوید)

[2] "وسیلہ" جنت کے ایک درجہ کا نام ہے (مشکاۃ)، فتح الباری 2/94 مصابیح السنہ 1/272

[3] اذان کے بعد یہ دعا پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے جسے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مؤذن (کی اذان) سن کر یہ دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له وان محمدا عبده ورسوله، رضيت بالله ربا و بمحمد رسولا و بالاسلام دينا

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔" (مسلم 1/290، مشکوٰۃ البانی 1/209، مصابیح السنہ 1/273) (جاوید)

[4] مؤلف کو یہاں سہو ہو گیا ہے جبکہ "حى على الصلوة" اور "حى على الفلاح" دونوں کے جواب میں "لا حول ولا قوة الا بالله" کہنا ہی ثابت ہے۔ (بخاری و مسلم) اور "العلی العظیم" کے کلمات کا اضافہ مسند احمد بن حنبل اور نہ ہی سنن نسائی میں ثابت ہے بلکہ یہ منکر اور باطل اضافہ ہے جو کہ صحیح احادیث کے مخالف ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: مشکوۃ المصابیح تحقیق البانی حدیث 675 (خلیق)

[5] اشعۃ اللمعات ص 1/381

عام طور پر معروف ہے کہ "الصلاة خير من النوم" کے الفاظ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اذان میں داخل کئے تھے۔ یہ بات سراسر غلط ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو جو اذان سکھائی تھی اس میں یہ الفاظ منقول ہیں: ان كان فى صلاة الصبح قلت الصلوة خير من النوم۔ (ابوداؤد 1/340، نسائی 2/7، مصابیح السنہ 1/269)[6]

[7] تکبیر کے دوران یا بعد میں "اقامها الله و ادامها" کہنے والی ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف کہا ہے۔ لہذا "قد قامت الصلوة" کے جواب میں "قد قامت الصلوة" کے الفاظ ہی کہے جائیں۔ باقی کلمات کا جواب عمومِ حدیث اذان پر عمل کرتے ہوئے دیا جائے۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: مشکوۃ المصابیح، تحقیق البانی حدیث 670 ۔۔۔ (خلیق)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:187

محدث فتویٰ

تبصرے