السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے دین فرمائیں کہ ایک شخص چار سال سے مفقود الخبر ہے۔ اس کی زوجہ حنفیہ کو امام مالک کے قول کے موافق دوسرا نکاح کرنا درست ہے یا نہیں؟ مزید گزارش یہ ہے کہ اگر نکاح کے بعد زوجِ اول یعنی مفقود الخبر آ جائے تو ایسی صورت میں یہ عورت زوجِ اول کو ملے گی یا زوجِ ثانی کے نکاح میں رہے گی؟ بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زوجہ حنفیہ المذہب کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے موافق دوسرا نکاح کرنا درست ہے، کیونکہ امام مالک کا قول خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے مستفاد ہے۔ اور فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين ۔۔۔
حنفیہ کے نزدیک بھی مسلم ہے:
قال في المؤطا امام مالك عن يحييٰ بن سعيد عن سعيد بن المسيب ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: أيما امرأة فقدت زوجها فلم تدر أين هو ؟ فإنها تنتظر أربع سنين ، ثم تعتد أربعة أشهر ، وعشرا ، ثم تحل (موطا 332/فاروقی ملتان)
"حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس کسی عورت کا شوہر گم ہو جائے اور وہ لاپتہ ہو تو وہ چار سال انتظار کرے گی پھر چار ماہ دس دن عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص کے لئے حلال ہو گی۔"
اور نکاح ثانی کے بعد اگر زوجِ اول مفقود الخبر آ جائے تو اس کو نہیں مل سکتی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد نکاح کر لیتی ہے وہ اس سے ملا یا نہ ملا، تاہم پہلے شوہر کو نہیں مل سکتی۔"
اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو مسوی میں اسی طرح تحریر کیا ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
٭ سید محمد نذیر حسین 1286ھ
٭ ابو محمد عبدالحق 1305ھ
٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ 1299ھ
٭ خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب 1300ھ
٭ قد صح الجواب۔ واللہ اعلم۔ حررہ ابو محمد عبدالرؤف البہاری المانفوری
٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ عبدالرؤف 1303ھ
٭ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ
٭ جواب صحیح ہے۔ ابو علی محمد عبدالرحمٰن الاعظم گڑھی المبارکفوری
٭ الجواب صحیح۔ نمقہ محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی
میں کہتا ہوں:
یہ مذہب حضرت عمر، عثمان، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے امام نخعی، زہری، مکحول، عطاء اور شعبی رحمہم اللہ کا ہے۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری و تلخیص امام رافعی وغیرھما۔
اور اس پر محققین حنفیہ مثل طحطاوی، شای، صاحب جامع الرموز، صاحب خزانۃ العلماء اور صاحب فتاویٰ حسب المفتین کا فتویٰ ہے:
قال في حسب المفتين، قول مالك رحمه الله تعاليٰ معمول به في هذه المسئلة وهو احد قولي الشافعي و لو افتي الحنفي بذلك يجوز فتواه لان عمر قضي هكذا في الذي استهوته الجن بالمدينة وكفي به اماما ولانه منع حقها بالغيبة فيفرق القاضي بينهما بمضي هذه المدة اعتبارا بالايلاء في العدد و ملاعنة في السنة بالشبهين۔ انتهي كلامه۔ لو افتي به في موضع الضرورة ينبغي ان لا باس به، كذا في الطحطاوي و رد المختار و خزانة العلماء وغيرها۔ وان شئت التفصيل فلترجع الي الرسالة المسماة بمسائل اربع للاستاذ المحقق والحبر المدقق المشتهر في المشرقين و في المغربين مولانا السيد/ محمد نذير حسين لا زالت فيوضاته هاطلة الي بقاء الملوين۔
"حسب المفتین میں ہے کہ: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول اس مسئلہ میں معمول بہ ہے اور یہی ایک قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے اور اگر حنفی اسی فتویٰ کو جاری کرے تو اس کا فتویٰ جائز ہو گا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے مطابق ہی اس شخص کے متعلق یہی فتویٰ دیا تھا جس کو جنوں نے مدینہ سے برگشتہ کر دیا تھا، اور ان کا امام ہونا کافی ہے اور اس لئے بھی کہ اس مرد کا غیاب عورت کے حقوق کی بجا آوری سے مانع ہے۔ سو قاضی تعداد میں ایلاء ([1]) اور لعان کی سنیت کا اعتبار کرتے ہوئے شبھین پر عمل کے باعث اس مدت کے گزرنے کے ساتھ ہی ان دونوں کے مابین تفریق کر دے گا۔ انتہی۔ اگر بوقت ضرورت اس کا فتویٰ دے دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں (طحطاوی ([2])، رد المختار، خزانۃ العلماء وغیرہ) مزید تفصیل کے لئے استاد، محقق، دقیق عالم، مشرقین و مغربین میں شہرت یافتہ علامہ سید/ محمد نذیر حسین صاحب، جن کا فیض شب و روز کے باقی رہنے تک جاری و ساری رہے گا، کے رسالہ "مسائل اربع" کی طرف رجوع کیجئے"
فقط حرره ابو القاسم محمد عبدالرحمن الفنجابي الاهور غفرالله تعاليٰ له والاساتذته ولجميع المؤمنين
٭ قد اصاب من اجاب۔ حررہ ابو محمد عبداللہ فقیر اللہ المتوطن ضلع شاہپور۔
٭ المجیب مصیب۔ محمد حسین خان خورجوی
٭ الجواب صحیح۔ محمد طاہر 1304ھ سلہٹی
٭ کادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین 1292ھ
[1] کیونکہ "ایلاء" کی مدت 4 ماہ اور لعان میں 4 قسمیں ہیں (جبکہ پانچویں میں تو جھوٹے ہونے کی صورت میں اپنے لئے غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے) عدد کا خیال کرتے ہوئے مدتِ انتظار چار سال مقرر کی گئی ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔ (خلیق)
[2] مفقود اور اس کی جورو (عورت) کے درمیان تفریق نہ کی جائے گی اور جب نوے برس گزر جائیں تو اس کی موت کا حکم دیا جائے گا۔ اسی پر فتویٰ ہے، فتاویٰ عالم گیری: عربی 2/300، اردو 3/510 ۔۔۔ (جاوید)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب