السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علماء کرام قربانی اور عقیقہ میں ذبح شدہ جانور کی کھال کے تصرف و استعمال کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ
آیا اس کھال کو اپنے استعمال میں لائے یا فقراء و مساکین کو دے دے، اور اگر فقراء کو دے تو کھال ہی دے یا بیچ کر اس کی قیمت ادا کر دے کیونکہ اکثر محتاج عدم واقفیت کی بنا پر ارزاں فروخت کر دیتے ہیں، نیز سقے اور دائیہ کو اس کھال کا دینا جائز ہے یا نہیں؟ بينوا توجروا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بصورت مرقوم کھال خواہ اپنے تصرف میں لائے جیسے مصلی وغیرہ بنا لے یا فقراء کو دے اگرچہ فروخت کر کے اس کی قیمت ہی ادا کر دے۔ دونوں طرح جائز ہے۔ سقے اور دائیہ کو کھال دینا جائز نہیں۔ هكذا حكم الشرع، مگر کھال کا بیچنا مکروہ ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
يتصدق بجلدها او يعمل منه غربال و جراب و قربة و سفرة و دلو او يبدله مما ينتفع به باقيا كمامر، لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه كدراهم، فان بيع اللحم والجلد به اى بمستهلك او بدارهم تصدق بثمنه و مفاده صحة البيع مع الكراهة و عن الثانى باطل لانه كالوقف مجتبى ولا يعطى اجر الجزار منها لانه كبيع واستفيدت من قوله عليه الصلاة والسلام: من باع جلد اضحية فلا اضحية له (ھدایہ 4/434، درمختار 5/231)
"(قربانی کی) کھال صدقہ کر دے یا اس سے چھلنی، چرمی تھیلا، مشکیزہ، دسترخوان اور ڈول بنا لے یا ایسی چیز سے تبدیل کر لے جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور وہ چیز اپنی حالت میں باقی رہے، یعنی ختم نہ ہو۔ جیسا کہ گزر چکا، نہ کہ تلف ہونے والی چیز کے ساتھ ہو جیسا سرکہ، گوشت وغیرہ جو کہ دراھم کی مانند ہیں اور اگر گوشت یا چمڑے کی بیع کسی تلف ہونے والی چیز یا دراہم کے ساتھ کی ہو تو اس کی قیمت کو صدقہ کر دے تو وہ بیع درست ہے مگر مکروہ۔ اور دوسرے قول کے مطابق یہ بیع باطل ہے اس لئے کہ وقف کی مانند ہے جو کہ پسندیدہ قول ہے۔ اور قصاب کی اجرت اس (کھال و گوشت) سے نہ دے اس لئے کہ یہ بیع کے مفہوم میں ہے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مستفاد ہے کہ: جس نے قربانی کی کھال فروخت کر دی، اس کی کوئی قربانی نہیں۔ (ہدایۃ، درمختار)
حررہ داجا خاک رہ محمد سعید نقشبندی (محمد سعید نقشبندی مجدد 1305)
٭ الجواب صحیح۔ محمد مسعود نقشبندی، امام مسجد فتح پوری۔
٭ جواب صحیح ہے، محمد اسماعیل عفی عنہ، مدرس اول فتح پوری
٭ الجواب صحیح، ابو سعید محمد یحییٰ، مدرس دوم فتح پوری۔
٭ جواب صحیح، ابو محمد عبدالحق۔
٭ جواب درست ہے مگر سقے وغیرہ کو اجرت میں دینا ممنوع ہے۔ ہاں مسکین سمجھ کر دینا درست ہے۔
٭ قادر علی عفی عنہ مدرس حسین بخش مرحوم خلف مولوی محمد عبدالرب صاحب مرحوم مغفور مبرور۔
٭ محمد ادریس واعظ مدرسہ حسین بخش مرحوم پنجابی
٭ فقیر محمد حسین 1285ھ مدرس مدرسہ مولوی عبدالرب مرحوم
٭ یہ جواب صحیح ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کھال یا کھال کی قیمت مسکین کو دے دی جائے۔ محمد امیر الدین پٹیالوی ثم الدہلوی واعظ جامع مسجد دہلی مقیم محلہ فرید پارچہ متصل فتح پوری
٭ محمد امیر الدین 1301ھ
٭ یاد رہے کہ جب قربانی کرنے والے نے قربانی کی کھال کو کسی مستھلک چیز سے بدلا یا اس کو روپیہ پیسہ سے فروخت کیا تو ایسی صورت میں اس کی قیمت فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہو گی جو کہ فقراء پر ہی تقسیم کرے۔
لأن هذا الثمن حصل لفعل مكروه فيكون خبيثا فيجب التصدق (عينى شرح هداية) لأن معنى التمول سقط عن الاضحية فاذا تمولها بالبيع انتقلت القربة الى بدله فوجب التصدق (كافى) (عینی 11/36)
"اس لئے کہ یہ قیمت فعل مکروہ سے حاصل شدہ ہے تو وہ ناپاک ہو گی۔ سو اس کا صدقہ ضروری ہو گا۔ (عینی)
اس لئے کہ قربانی سے ملکیت کا مفہوم ساقط ہو گیا تو جب اس نے بیع سے ملکیت حاصل کر لی تو قربت قربانی اس کی بدل کی طرف منتقل ہو جائے گی سو (کھال کا) صدقہ کرنا لازمی ہوا۔
اور عقیقہ کی کھال کا حکم بھی قربانی کی کھال کی مانند ہے۔ هكذا في كتب الفقه. فقط والله اعلم نمقہ الفقیر/محمد یعقوب عفا اللہ عنہ الذنوب حنفی دہلوی خلف مولوی کریم اللہ صاحب مرحوم دہلوی۔ (عبد محمد یعقوب وارد امید شفا 1287ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب